وَوَهَبْنَا لَهُ إِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ ۚ كُلًّا هَدَيْنَا ۚ وَنُوحًا هَدَيْنَا مِن قَبْلُ ۖ وَمِن ذُرِّيَّتِهِ دَاوُودَ وَسُلَيْمَانَ وَأَيُّوبَ وَيُوسُفَ وَمُوسَىٰ وَهَارُونَ ۚ وَكَذَٰلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ
اور ہم نے ابراہیم کو اسحق اور یعقوب عطا کیے۔ ہر ایک کو ہم نے سیدھی راہ دکھائی اور نوح کو اس سے پیشتر ہدایت دے چکے تھے اور اس (ابراہیم) کی اولاد میں سے ہم نے داؤد، سلیمان، ایوب، یوسف، موسیٰ اور ہارون کو ہدایت دی تھی اور ہم نیکو کاروں کو ایسے ہی جزا دیتے ہیں
1۔ كُلًّا هَدَيْنَا: یعنی ابراہیم علیہ السلام کی راہ پر لگایا اور نبوت عطا کی۔ دیکھیے سورۂ مریم (۴۹)۔ 2۔ وَ مِنْ ذُرِّيَّتِهٖ دَاؤدَ وَ سُلَيْمٰنَ ....: ’’ذُرِّيَّتِهٖ ‘‘ میں موجود ضمیر سے مراد نوح علیہ السلام بھی ہو سکتے ہیں، اس لیے کہ مذکور نبیوں میں سب سے قریب نوح علیہ السلام ہی ہیں،امام ابن جریر رحمہ اللہ نے اسی کو اختیار کیا ہے۔ یہ ضمیر ابراہیم علیہ السلام کی طرف بھی لوٹ سکتی ہے اور کلام کے سیاق کے پیش نظر اس کو ترجیح دی جا سکتی ہے، مگر اس کے تحت مذکور انبیاء میں سے لوط علیہ السلام کے ذکر سے اشکال پیدا ہوتا ہے کہ وہ ابراہیم علیہ السلام کی اولاد میں سے نہیں تھے، بلکہ ان کے بھتیجے تھے، مگر ہو سکتا ہے کہ بھتیجے کو بھی اولاد میں شمار کر لیا ہو، جیسا کہ سورۂ بقرہ (۱۳۳) میں اسماعیل علیہ السلام کو یعقوب علیہ السلام کی اولاد کے آباء میں ذکر کیا ہے۔ (ابن کثیر) 3۔ عیسیٰ علیہ السلام کو نوح علیہ السلام اور دوسرے قول کے مطابق ابراہیم علیہ السلام کی اولاد میں سے شمار کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ بیٹیوں کی اولاد بھی آدمی کی اولاد میں سے شمار ہوتی ہے، کیونکہ عیسیٰ علیہ السلام کی نسبت صرف ماں کی طرف سے ہے، ان کا باپ نہیں تھا۔ (ابن کثیر)