وَإِذَا جَاءَكَ الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِآيَاتِنَا فَقُلْ سَلَامٌ عَلَيْكُمْ ۖ كَتَبَ رَبُّكُمْ عَلَىٰ نَفْسِهِ الرَّحْمَةَ ۖ أَنَّهُ مَنْ عَمِلَ مِنكُمْ سُوءًا بِجَهَالَةٍ ثُمَّ تَابَ مِن بَعْدِهِ وَأَصْلَحَ فَأَنَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
اور جب آپ کے پاس وہ لوگ آئیں جو ہماری آیتوں پر ایمان لاتے ہیں تو آپ انہیں کہئے : تم پر سلامتی ہو۔ تمہارے پروردگار نے اپنے اوپر [٥٧] رحمت کو لازم کرلیا ہے۔ کہ تم میں سے کوئی شخص [٥٨] لاعلمی سے کوئی برا کام کر بیٹھے پھر اسکے بعد وہ توبہ کرلے اور اپنی اصلاح کرلے تو یقینا وہ معاف کردینے والا اور رحم کرنے والا ہے
1۔ وَ اِذَا جَآءَكَ الَّذِيْنَ....: پہلی آیت میں کمزور اہل ایمان کو اپنے پاس سے دور ہٹانے سے منع فرمایا، اب اس آیت میں ان کے اکرام اور عزت افزائی کا حکم دیا۔ (رازی) یعنی جو لوگ کفر و شرک کے غلبے کے باوجود اس پر آشوب دور میں آپ کی دعوت قبول کر کے مسلمان ہو رہے ہیں انھیں امن اور سلامتی کی خوش خبری دے دیجیے، یعنی یہ کہ اسلام لانے کے بعد وہ اللہ کے عذاب سے امن والے ہو گئے، اب ان کی ان اعمال پر پکڑ نہیں ہو گی جو وہ کفر کی زندگی میں کرتے رہے ہیں۔ ( المنار) اس سے معلوم ہوا کہ نیک لوگوں کا احترام کرنا چاہیے اور انھیں ناراض نہیں کرنا چاہیے۔ 2۔ كَتَبَ رَبُّكُمْ عَلٰى نَفْسِهِ الرَّحْمَةَ: اس جملے کی تفسیر کے لیے دیکھیے اسی سورت کی آیت (۱۲) کی تفسیر۔ 3۔ اَنَّهٗ مَنْ عَمِلَ مِنْكُمْ سُوْٓءًۢا بِجَهَالَةٍ....: جہالت کے ساتھ گناہ کا مطلب اس کے برے انجام کو نہ سمجھنا ہے۔ دیکھیے سورۂ نساء (۱۷) پہلے انذار ( ڈرانا) تھا، اب تبشیر (خوش خبری) ہے، یعنی یہ اس کی رحمت کا اثر ہے کہ وہ اعمال سیئہ کو چھوڑ کر اعمال حسنہ کرنے والوں کی توبہ قبول فرماتا ہے اور اپنی آیات کھول کر بیان کرتا ہے، تاکہ اصلاح کاروں سے مجرموں کا راستہ ممتاز اور خوب واضح ہو جائے۔