أَفَتَطْمَعُونَ أَن يُؤْمِنُوا لَكُمْ وَقَدْ كَانَ فَرِيقٌ مِّنْهُمْ يَسْمَعُونَ كَلَامَ اللَّهِ ثُمَّ يُحَرِّفُونَهُ مِن بَعْدِ مَا عَقَلُوهُ وَهُمْ يَعْلَمُونَ
(مسلمانو!) کیا تم ان (یہود) سے یہ توقع رکھتے ہو کہ وہ تمہاری خاطر ایمان لائیں گے؟ حالانکہ ان میں سے ایک گروہ ایسا ہے جو اللہ تعالیٰ کا کلام سنتے ہیں۔ پھر اس کو سمجھ لینے کے بعد دیدہ دانستہ اس میں تحریف [٨٩] کر ڈالتے ہیں
یہ خطاب مسلمانوں سے ہے کہ یہود سے ایمان کی توقع بے سود ہے، ان کے پہلے بزرگ یہ ہیں کہ وہ دیدہ و دانستہ اللہ کے کلام یعنی تورات میں تحریف کر ڈالتے تھے۔ اس جگہ لفظ تحریف لفظی اور معنوی دونوں قسم کی تحریف کو شامل ہے۔ انھوں نے تورات کے الفاظ بھی بدل ڈالے تھے، مگر زیادہ تر غلط تاویلوں سے معانی تبدیل کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ موجودہ یہود نے تورات کی ان آیات کو بدل ڈالا جن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اوصاف کا ذکر تھا اور اپنے دل سے حرام کو حلال اور حلال کو حرام ٹھہرا لیا۔ (ابن کثیر، قرطبی) آج کل کے باطل پرست علماء بھی اپنے خود ساختہ مسائل کو درست ثابت کرنے کے لیے ہر قسم کے حوالہ جات قرآن و حدیث سے تراش رہے ہیں اور شریعت میں تحریف کا ارتکاب کر رہے ہیں ۔