سورة الانعام - آیت 21

وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَىٰ عَلَى اللَّهِ كَذِبًا أَوْ كَذَّبَ بِآيَاتِهِ ۗ إِنَّهُ لَا يُفْلِحُ الظَّالِمُونَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

اور اس شخص سے بڑھ کر ظالم کون ہوسکتا ہے جو جھوٹی بات کو اللہ کے [٢٤] ذمہ لگادے یا اس کی آیات [٢٥] کو جھٹلائے۔ یقیناً ایسے ظالم فلاح نہیں پا سکتے

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

وَ مَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰى....: یعنی اگر میں نے جھوٹ بولا تو مجھ سے بڑا ظالم کوئی نہیں اور اگر میں نے سچ پہنچایا اور تم نے جھٹلایا تو تم سے زیادہ گناہ گار کوئی نہیں، پس اپنی فکر کرو۔ (موضح) اب اس آیت میں ان کے خسارے کا سبب بیان فرمایا۔ (رازی) خسارے کا پہلا سبب افتراء علی اللہ، یعنی اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھنا قرار دیا ہے اور اہل علم جانتے ہیں کہ کفار مکہ کے دین کی بنیاد ہی جھوٹ گھڑنے پر تھی۔ بتوں کو اللہ کا شریک قرار دینا، فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں کہنا اور بحیرہ و سائبہ وغیرہ کو حرام قرار دینا، یہ سب چیزیں جھوٹ گھڑنے پر مبنی تھیں۔ اسی طرح یہود و نصاریٰ کے دین میں بہت سے افترا شامل ہوگئے تھے، مثلاً وہ تورات و انجیل کو ناقابل نسخ قرار دیتے، اپنے آپ کو اللہ کے بیٹے اور اس کے حبیب کہتے، اسی طرح اللہ تعالیٰ کے متعلق بہت سی جہالت کی باتیں کرتے تھے۔ خسارے کا دوسرا سبب اللہ تعالیٰ کی آیات کو جھٹلانا ہے، جس میں معجزات و احکام کو جھٹلانا بھی شامل ہے۔ اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھنے والوں میں نبوت کے جھوٹے دعوے دار وہ تیس کذاب بھی شامل ہیں جن کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پیش گوئی فرمائی تھی۔ [مسلم، الفتن، باب لا تقوم الساعۃ ....: ۸۴؍۲۹۲۳ ] جن میں مرزا قادیانی اور اسے نبی کہنے والے بھی شامل ہیں، اس کے علاوہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذمے کوئی جھوٹی حدیث لگانے والے بھی، کیونکہ آپ کے ذمے کوئی بات لگانے والا درحقیقت وہ بات اللہ کے ذمے لگا رہا ہوتا ہے۔