أَلَمْ يَرَوْا كَمْ أَهْلَكْنَا مِن قَبْلِهِم مِّن قَرْنٍ مَّكَّنَّاهُمْ فِي الْأَرْضِ مَا لَمْ نُمَكِّن لَّكُمْ وَأَرْسَلْنَا السَّمَاءَ عَلَيْهِم مِّدْرَارًا وَجَعَلْنَا الْأَنْهَارَ تَجْرِي مِن تَحْتِهِمْ فَأَهْلَكْنَاهُم بِذُنُوبِهِمْ وَأَنشَأْنَا مِن بَعْدِهِمْ قَرْنًا آخَرِينَ
کیا انہوں نے دیکھا نہیں کہ ہم نے ان سے پہلے کتنی قوموں کو ہلاک کردیا۔ [٦] انہیں ہم نے زمین میں اتنا اقتدار بخشا تھا جتنا تمہیں نہیں بخشا۔ اور ہم نے ان پر آسمان سے خوب بارشیں برسائیں اور ان کے نیچے نہریں بہا دیں پھر ان کے گناہوں کی پاداش میں انہیں ہلاک کردیا اور ان کے بعد دوسری قومیں پیدا کردیں
اَلَمْ يَرَوْا كَمْ اَهْلَكْنَا.... : کفار کو متنبہ کیا جا رہا ہے کہ کیا انھیں معلوم نہیں کہ ان سے پہلے کئی اقوام، مثلاً قوم نوح، عاد و ثمود اور آل فرعون جو قوت و اقتدار میں ان سے کہیں بڑھ کر تھے اور بارشوں اور نہروں کی وجہ سے ان کے باغ اور کھیت سر سبز و شاداب تھے اور عیش و خوشحالی کا دور دورہ تھا، جب انھوں نے بغاوت اور سرکشی پر کمر باندھی تو ہم نے ان کا نام و نشان مٹا دیا، پھر ان کے بعد اور قومیں پیدا کر دیں۔ جب تم سے زیادہ طاقت ور قوموں کو ہم نے ان کے گناہوں کی وجہ سے ہلاک کر دیا تو تمھاری کیا حیثیت ہے۔ مزید دیکھیے سورۂ احقاف (۲۶، ۲۷) اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ دنیوی ترقی اللہ تعالیٰ کے راضی ہونے کی دلیل نہیں، بلکہ ان پر حجت قائم کرنے کے لیے استدراج (رسی ڈھیلی کرنا) بھی ہو سکتا ہے۔ اس امتحان کا نتیجہ آخرت کو سامنے آئے گا۔