سورة المآئدہ - آیت 27

وَاتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَأَ ابْنَيْ آدَمَ بِالْحَقِّ إِذْ قَرَّبَا قُرْبَانًا فَتُقُبِّلَ مِنْ أَحَدِهِمَا وَلَمْ يُتَقَبَّلْ مِنَ الْآخَرِ قَالَ لَأَقْتُلَنَّكَ ۖ قَالَ إِنَّمَا يَتَقَبَّلُ اللَّهُ مِنَ الْمُتَّقِينَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

نیز آپ ان اہل کتاب کو آدم کے دو بیٹوں کا سچا واقعہ سنائیے۔ جب ان دونوں نے (اللہ کے حضور) قربانی پیش کی تو ان [٥٨] میں سے ایک کی قربانی تو قبول ہوگئی اور دوسرے کی نہ ہوئی۔ دوسرے [٥٩] نے پہلے سے کہا :”میں ضرور تمہیں مار دوں گا‘‘ پہلے نے جواب دیا : (اس میں میرا کیا قصور) اللہ تو صرف پرہیزگاروں کی قربانی قبول کرتا ہے

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

وَ اتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَاَ ابْنَيْ اٰدَمَ بِالْحَقِّ : آدم علیہ السلام کے ان دو بیٹوں کا نام ہابیل اور قابیل مشہور ہے، اگرچہ قرآن یا حدیث میں یہ نام نہیں آئے۔ وَ اتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَاَ ابْنَيْ اٰدَمَ بِالْحَقِّ....: یہ نذر یا قربانی کس لیے پیش کی گئی اس کے بارے میں کوئی صحیح روایت نہیں، البتہ مشہور یہ ہے کہ ابتدا میں آدم اور حوا علیہما السلام کے ملاپ سے بیک وقت لڑکا اور لڑکی پیدا ہوتے تھے، دوسرے حمل سے پھر لڑکا لڑکی ہوتے، ایک حمل کے بہن بھائی کا نکاح دوسرے حمل کے بہن بھائی سے کر دیا جاتا۔ ہابیل کے ساتھ پیدا ہونے والی بہن بد صورت تھی، جبکہ قابیل کے ساتھ پیدا ہونے والی بہن خوبصورت تھی، اس وقت کے اصول کے مطابق ہابیل کا نکاح قابیل کی بہن کے ساتھ اور قابیل کا ہابیل کی بہن کے ساتھ ہونا تھا، لیکن قابیل چاہتا تھا کہ وہ ہابیل کی بہن کے بجائے اپنی ہی بہن کے ساتھ، جو خوب صورت تھی، نکاح کرے۔ آدم علیہ السلام نے اسے سمجھایا لیکن وہ نہ سمجھا۔ بالآخر آدم علیہ السلام نے دونوں کو بارگاہ الٰہی میں قربانیاں پیش کرنے کا حکم دیا اور فرمایا کہ جس کی قربانی قبول ہو جائے گی قابیل کی بہن کا نکاح اس سے کر دیا جائے گا۔ ہابیل کی قربانی قبول ہو گئی، یعنی آسمان سے آگ آئی اور اسے کھا گئی جو اس کے قبول ہونے کی دلیل تھی، لیکن جیسا کہ بتایا گیا ہے یہ بات ثابت نہیں ہے۔ 3۔ اوپرکی آیات میں یہ بیان فرمایا تھا کہ مخالفین ہر طرح سے مسلمانوں پر مصائب و شدائد لانا چاہتے ہیں، جیسا کہ فرمایا ﴿اِذْ هَمَّ قَوْمٌ اَنْ يَّبْسُطُوْۤا اِلَيْكُمْ اَيْدِيَهُمْ﴾ [ المائدۃ : ۱۱ ] ’’جب کچھ لوگوں نے ارادہ کیا کہ تمھاری طرف اپنے ہاتھ بڑھائیں۔‘‘ مگر اﷲ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے مسلمانوں کی حفاظت فرما رہا ہے۔ اس کے بعد رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دینے کے لیے کچھ واقعات بیان فرمائے، جن سے یہ ثابت کرنا مقصود ہے کہ جس شخص کو بھی اﷲ تعالیٰ نے دینی اور دنیاوی نعمتوں سے نوازا ہے، لوگ اس سے ہمیشہ حسد و بغض سے پیش آتے رہے ہیں، چنانچہ یہود و نصاریٰ کی مخالفت بھی ان کی سر کشی اور بغض و حسد پر مبنی ہے، لہٰذا ان پر افسوس اور غم نہ کیجیے۔ اب یہاں آدم علیہ السلام کے دو بیٹوں کا قصہ بیان کیا، جو اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے، کیونکہ ایک بھائی کا دوسرے کو قتل کرنا حسد کی بنا پر تھا۔ الغرض ان تمام واقعات سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دینا مقصود ہے اور ہو سکتا ہے کہ بتانا مقصود ہو کہ یہود اپنے گمان میں اﷲ تعالیٰ کے محبوب ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں، کہتے ہیں : ﴿نَحْنُ اَبْنٰٓؤُا اللّٰهِ وَ اَحِبَّآؤُهٗ ﴾ [ المائدۃ : ۱۸ ] اور انبیاء کی اولاد ہونے پر ان کو فخر ہے، مگر کفر اور حسد و عناد کے ساتھ یہ نسبی شرف ان کے لیے مفید نہیں ہو سکتا، آدم علیہ السلام کے دو بیٹوں کا قصہ اس پر شاہد ہے۔ (کبیر، قرطبی) اس سے مقصد حسد سے بچنے کی تاکید ہے۔ حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ دونوں آدمی بنی اسرائیل سے تھے۔ یہود کا حسد بیان کرنے کے لیے اﷲ تعالیٰ نے بطور مثال یہ واقعہ بیان کیا ہے۔ اس کی دلیل اس قصے کے آخر میں آنے والی آیت ہے : ﴿مِنْ اَجْلِ ذٰلِكَ كَتَبْنَا عَلٰى بَنِيْۤ اِسْرَآءِيْلَ ﴾ [ المائدۃ : ۳۲ ] یعنی اس قصے ہی کی وجہ سے ہم نے بنی اسرائیل پر لکھ دیا…… (کبیر۔ قرطبی) مگر صحیح بخاری اور مسلم کی ایک حدیث کی وجہ سے یہ بات درست معلوم نہیں ہوتی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’جو شخص بھی ظلم سے قتل کیا جاتا ہے (قاتل کے ساتھ) اس کے خون ناحق کا بوجھ آدم ( علیہ السلام ) کے پہلے بیٹے پر بھی ہوتا ہے، کیونکہ وہ پہلا شخص تھا جس نے قتل کا کام شروع کیا۔‘‘ [ بخاری، أحادیث الأنبیا، باب خلق آدم صلوات اﷲ علیہ و ذریتہ: ۳۳۳۵۔ مسلم: ۱۶۷۷ ] اِنَّمَا يَتَقَبَّلُ اللّٰهُ مِنَ الْمُتَّقِيْنَ : یعنی تم بھی اگر اﷲ کی نافرمانی سے بچتے اور اﷲ سے ڈرتے تو تمھاری قربانی بھی قبول ہو جاتی۔