سورة البقرة - آیت 62

إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَىٰ وَالصَّابِئِينَ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَعَمِلَ صَالِحًا فَلَهُمْ أَجْرُهُمْ عِندَ رَبِّهِمْ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

جو لوگ (بظاہر) ایمان لائے ہیں اور جو یہودی ہیں یا عیسائی [٨٠] یا صابی (بے دین) ہیں، ان میں سے جو بھی (فی الحقیقت) اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان لائے اور عمل بھی اچھے کرے تو ایسے ہی لوگوں کو اپنے رب کے ہاں سے اجر ملے گا۔ اور ان پر نہ تو کوئی خوف طاری ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

1۔ اس آیت سے پہلی آیات اور اس کے بعد والی آیات میں بنی اسرائیل پر انعامات اور ان کے مقابلے میں ان کے اعمال بد کا تذکرہ ہے۔ یہ آیت درمیان میں ایک خاص مناسبت کی بنا پر آئی ہے، وہ یہ کہ جب بات ان پر ذلت و مسکنت مسلط ہونے اور اللہ کے غضب کا نشانہ بننے تک پہنچی تو اللہ تعالیٰ نے اپنی عادت کے مطابق ان کے لیے اپنی رحمت کا تذکرہ ضروری سمجھا کہ بنی اسرائیل کا ہر فرد اس ذلت و مسکنت اور غضب الٰہی کا نشانہ نہیں ، پہلے بھی اللہ تعالیٰ بے حد مہربان تھا اور توبہ کا دروازہ اب بھی کھلا ہے۔ اگر ان میں سے کوئی ایمان اور عمل صالح سے متصف ہو گا، خواہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے ہو، جیسے آپ سے پہلے اپنے اپنے انبیاء پر ایمان لا کر عمل صالح کرنے والے لوگ ہوں ، یا آپ کے زمانے میں یہود و نصاریٰ میں سے ایمان لانے والے ہوں ، مثلاً عبد اللہ بن سلام، صہیب اور سلمان رضی اللہ عنہم ، سب کا اجر اللہ تعالیٰ کے ہاں محفوظ ہے۔ یہود و نصاریٰ کو مزید مانوس کرنے کے لیے مسلمانوں اور صابئین کا بھی ساتھ ذکر کر دیا کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کسی خاص نسل کے ساتھ مخصوص نہیں ، شرط صرف ایمان اور عمل صالح ہے۔ [ التحریر والتنویر ] 2۔بعض لوگوں نے اس آیت سے یہ بات ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ اب بھی اگر عیسائی، یہودی اور صابی اپنے اپنے مذہب پر رہ کر عمل صالح کریں ، تو مسلمانوں کی طرح ان کی بھی نجات ہو جائے گی، یہ بات سراسر غلط ہے، کیونکہ تورات و انجیل میں بنی اسرائیل کو صاف الفاظ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کا حکم موجود ہے۔ حوالہ جات کے لیے دیکھیے سورۂ اعراف (۱۵۷) اور سورۂ صف(۶) کے حواشی۔ اب اگر ان میں سے کوئی شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان نہیں لاتا تو اس کا تورات و انجیل پر بھی ایمان نہیں ، وہ کیسے نجات پا سکتا ہے؟ ﴿ وَ مَنْ يَّبْتَغِ غَيْرَ الْاِسْلَامِ دِيْنًا فَلَنْ يُّقْبَلَ مِنْهُ ﴾ [ آل عمران : ۸۵ ] ’’اور جو اسلام کے علاوہ کوئی اور دین تلاش کرے تو وہ اس سے ہرگز قبول نہ کیا جائے گا۔‘‘ اس آیت میں یہی بات بیان ہوئی ہے، ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( وَالَّذِيْ نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهٖ لاَ يَسْمَعُ بِيْ أَحَدٌ مِنْ هٰذِهِ الْاُمَّةِ يَهُوْدِيٌّ وَلاَ نَصْرَانِيٌّ ثُمَّ يَمُوْتُ وَلَمْ يُؤْمِنْ بِالَّذِيْ أُرْسِلْتُ بِهٖ إِلاَّ كَانَ مِنْ أَصْحَابِ النَّارِ)) [ مسلم، الإیمان، باب وجوب الإیمان برسالۃ ....:۱۵۳ ] ’’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی جان ہے ! اس امت کا کوئی بھی یہودی یا عیسائی جو میرے بارے میں سن لے، پھر وہ مجھ پر ایمان نہ لائے مگر وہ آگ میں داخل ہوگا۔‘‘ الصّٰبِئِيْنَ: یہ ”صَابِیءٌ“ کی جمع ہے، اس کا مادہ (ص، ب، ء) ہے، جو شخص ایک دین سے دوسرے دین کی طرف نکل جائے، گویا یہ ’’صَبَأَ نَابُ الْبَعِيْرِ‘‘ سے ہے، جس کا معنی ہے اونٹ کی کچلی نکل آئی۔ ایک قراء ت میں ’’اَلصَّابِيْنَ‘‘ ہے، وہ اسی ”الصّٰبِئِيْنَ“ میں سے ہمزہ کی تخفیف سے ہے اور بعض نے کہا بلکہ وہ ’’صَبَا يَصْبُوْ ‘‘ سے ہے، جس کے معنی مائل ہونا ہیں ، یعنی وہ ایک دین سے دوسرے دین کی طرف مائل ہو گیا۔ ( راغب) اسی لیے جو شخص مسلمان ہوتا کفارِ قریش اسے صابی کہتے تھے۔ معلوم ہوتا ہے یہود و نصاریٰ کی طرح یہ لوگ بھی آسمانی دین پر تھے، اس لیے اس آیت میں ان کے ساتھ ان کا ذکر ہوا، بعد میں ان کے اندر بگاڑ پیدا ہو گیا اور وہ ستاروں کی پرستش کرنے لگے۔ یہ لوگ اپنے مذہب کو حد درجہ چھپاتے تھے، شیعہ اسماعیلیہ نے مذہب کو چھپانا انہی سے لیا ہے۔ ان کے اہل کتاب ہونے کے بارے میں صحابہ و تابعین سے مختلف اقوال منقول ہیں ۔ [ تفصیل کے لیے دیکھیے: جصاص، الفہرست لابن ندیم، الملل والنحل ]