سورة البقرة - آیت 58

وَإِذْ قُلْنَا ادْخُلُوا هَٰذِهِ الْقَرْيَةَ فَكُلُوا مِنْهَا حَيْثُ شِئْتُمْ رَغَدًا وَادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّدًا وَقُولُوا حِطَّةٌ نَّغْفِرْ لَكُمْ خَطَايَاكُمْ ۚ وَسَنَزِيدُ الْمُحْسِنِينَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

اور (وہ واقعہ بھی یاد کرو) جب ہم نے انہیں کہا تھا کہ : ’’اس بستی میں داخل ہوجاؤ اور جہاں سے جی چاہے سیر ہو کر کھاؤ پیو، البتہ جب اس بستی کے دروازے سے گزرنے [٧٤] لگو تو سجدہ کرتے ہوئے گزرنا اور حِطّۃ کہتے جانا۔ ہم تمہاری خطائیں معاف کردیں گے اور نیکوکاروں پر مزید فضل و کرم کریں گے۔‘‘

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

1۔اس شہرسےمراد کون ساشہر ہے،بعض مفسرین نے کہا ہے کہ اس سے اریحا شہر مراد ہے، مگر یہ بعید ہے، کیونکہ اس وقت بنی اسرائیل بیت المقدس کی طرف جا رہے تھے اور یہ اس راستے پر نہیں ہے اور بعض نے فرعون والا مصر مراد لیا ہے، یہ قول اس سے بھی زیادہ بعید ہے۔ زیادہ صحیح قول جسے اکثر مفسرین نے اختیار کیا ہے، یہ ہے کہ اس سے بیت المقدس کا شہر ہی مراد ہے، جیسا کہ سورۂ مائدہ(۲۱) میں ہے : ﴿ يٰقَوْمِ ادْخُلُوا الْاَرْضَ الْمُقَدَّسَةَ الَّتِيْ كَتَبَ اللّٰهُ لَكُمْ ﴾ ’’ اے میری قوم ! اس مقدس زمین میں داخل ہو جاؤ جو اللہ نے تمھارے لیے لکھ دی ہے۔‘‘ (ابن کثیر) یہاں یہ اشکال پیدا ہوتا ہے کہ بیت المقدس تو موسیٰ علیہ السلام کی زندگی میں فتح ہی نہیں ہو سکا، حالانکہ ”فَبَدَّلَ“ کی فاء سے معلوم ہوتا ہے کہ اس حکم کے بعد وہ فوراً شہر میں چلے گئے۔ رازی نے اس اشکال کا حل پیش کیا ہے کہ ضروری نہیں کہ یہ حکم موسیٰ علیہ السلام کی زبانی دیا گیا ہو، بلکہ عین ممکن ہے کہ یوشع بن نون علیہ السلام کے عہد نبوت میں جب بیت المقدس فتح ہوا تو انھیں حکم دیا گیا ہو کہ اس فتح کی شکر گزاری میں اللہ تعالیٰ کے عاجز بندوں کی طرح سجدہ ریز ہو کر اپنے گناہوں کی بخشش مانگتے ہوئے شہر میں داخل ہوں ۔ ابن کثیر رحمہ اللہ لکھتے ہیں یہ حکم ویسے ہی تھا جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سورۂ نصر میں فتح کے موقع پر تسبیح و استغفار کا حکم دیا گیا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ میں داخل ہونے کے بعد نمازِ فتح (آٹھ رکعات ) ادا کی ہے۔ وَ سَنَزِيْدُ الْمُحْسِنِيْنَ: یعنی گناہوں کی بخشش کے علاوہ مزید درجات حاصل ہوں گے۔ احسان کا معنی خالص اللہ کے لیے عمل کرنا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے احسان کی حقیقت کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( أَنْ تَعْبُدَ اللّٰهَ كَأَنَّكَ تَرَاهُ فَإِنْ لَّمْ تَكُنْ تَرَاهٗ فَإِنَّهٗ يَرَاكَ )) ’’اللہ تعالیٰ کی عبادت اس طرح کرو گویا تم اسے دیکھ رہے ہو، سو اگر تم اسے نہیں دیکھتے ہو تو یقیناً وہ تمھیں دیکھتا ہے۔‘‘ [ بخاری، الإیمان، باب سؤال جبریل النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم .... : ۵۰، عن عمر رضی اللّٰہ عنہ ]