مِن شَرِّ الْوَسْوَاسِ الْخَنَّاسِ
اس وسوسہ [٢] ڈالنے والے کے شر سے جو (وسوسہ ڈال کر) پیچھے ہٹ جاتا ہے
1۔مِنْ شَرِّ الْوَسْوَاسِ الْخَنَّاسِ: ’’ الْوَسْوَاسِ ‘‘ واؤ کے کسرہ کے ساتھ ہو تو یہ ’’وَسْوَسَ يُوَسْوِسُ‘‘ کا مصدر ہے، وسوسہ ڈالنا، جیسے ’’زِلْزَالٌ‘‘ (زاء کے کسرہ کے ساتھ) ہے، سخت ہلانا۔ (زمخشری) یہاں ’’الْوَسْوَاسِ ‘‘ واؤ کے فتحہ کے ساتھ ہے، یہ مصدر نہیں بلکہ صفت ہے، جو اسم فاعل کے معنی میں ہے، بہت وسوسہ ڈالنے والا، جس طرح ’’ثَرْثَارٌ‘‘ (بہت باتیں کرنے والا) اور ’’دَحْدَاحٌ‘‘ (بہت چھوٹے قد والا) وغیرہ ہیں۔ (تفسیر ابن قیم) 2۔ ’’ الْوَسْوَاسِ ‘‘ مضاعف رباعی ہے، اس کے مفہوم میں تکرار ( بار بار وسوسہ ڈالنا) شامل ہے، جس طرح ’’زَلْزَلَ‘‘ کے مفہوم میں بار بار ہلانا اور ’’ثَرْثَرَ‘‘ میں بولتے چلے جانا شامل ہے۔ ’’ الْوَسْوَاسِ ‘‘ کا معنی بہت وسوسہ ڈالنے والا جو بار بار وسوسہ ڈالتا ہے۔ 3۔ ’’وَسْوَسَةٌ‘‘ کا اصل معنی وہ ہلکی یا دبی ہوئی حرکت یا آواز ہے جو عام طور پر محسوس نہ ہوتی ہو۔ اس سے مراد وہ بات بھی ہوتی ہے جو بالکل آہستہ آواز سے کسی کے کان میں کہی جائے اور صرف اسی کو سنائی دے اور وہ بھی جو آواز کے بغیر کسی کے دل میں ڈال دی جائے، جیسے شیطان انسان کے دل میں وسوسہ ڈالتا ہے۔ 4۔ ’’الْخَنَّاسِ‘‘ ’’خَنَسَ يَخْنِسُ‘‘ ( ض ، ن ) پیچھے ہٹنا ، ہٹانا۔ سورۂ تکویر میں ستاروں کو ’’اَلْخُنَّسُ‘‘ فرمایا ہے، کیونکہ وہ روزانہ مغرب میں غروب ہوتے ہیں، پھر پیچھے ہٹتے ہوئے دوبارہ مشرق سے نمودار ہو جاتے ہیں۔ ’’ الْوَسْوَاسِ الْخَنَّاسِ‘‘ مبالغے کا صیغہ ہے، یعنی بہت پیچھے ہٹنے والا۔ اس سے یہ بات خود بخود سمجھ میں آرہی ہے کہ وہ ایک دفعہ ہی وسوسہ ڈال کر پیچھے نہیں ہٹ جاتا، بلکہ بار بار وسوسہ ڈالتا ، بار بار پیچھے ہٹتا اور پھر ہٹ ہٹ کر وسوسہ ڈالتا ہے۔ شیطان کو ’’الْوَسْوَاسِ الْخَنَّاسِ‘‘ اس لیے کہا گیا ہے کہ وہ آدمی کے دل میں برے خیالات ڈالتا ہے، جب وہ اللہ کا ذکر کرے تو پیچھے ہٹ جاتا ہے، جب ذکر سے غافل ہو تو دوبارہ لوٹ کر وسوسہ ڈالنا شروع کر دیتا ہے۔ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( إِذَا نُوْدِيَ لِلصَّلاَةِ أَدْبَرَ الشَّيْطَانُ وَلَهُ ضُرَاطٌ، حَتّٰی لاَ يَسْمَعَ التَّأْذِيْنَ ، فَإِذَا قُضِيَ النِّدَاءُ أَقْبَلَ، حَتّٰی إِذَا ثُوِّبَ بِالصَّلاَةِ أَدْبَرَ ، حَتّٰی إِذَا قُضِيَ التَّثْوِيْبُ أَقْبَلَ حَتّٰی يَخْطُرَ بَيْنَ الْمَرْءِ وَنَفْسِهِ ، يَقُوْلُ اذْكُرْ كَذَا ، اذْكُرْ كَذَا، لِمَا لَمْ يَكُنْ يَذْكُرُ ، حَتّٰی يَظَلَّ الرَّجُلُ لاَ يَدْرِيْ كَمْ صَلّٰی )) [ بخاري، الأذان، باب فضل التأذین : ۶۰۸ ] ’’جب نماز کے لیے اذان ہوتی ہے تو شیطان گوز مارتا ہوا پیٹھ دے کر بھاگ جاتا ہے، تاکہ اذان نہ سنے۔ جب اذان پوری ہوتی ہے تو آجاتا ہے، پھر جب نماز کی اقامت ہوتی ہے چلا جاتا ہے، جب اقامت مکمل ہوتی ہے تو واپس آکر آدمی اور اس کے دل کے درمیان خیالات ڈالنا شروع کر دیتا ہے۔ کہتا ہے فلاں چیز یاد کر، فلاں چیز یاد کر، وہ چیزیں جو اسے یاد نہیں تھیں، یہاں تک کہ آدمی کی حالت یہ ہو جاتی ہے کہ اسے یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ اس نے کتنی نماز پڑھی ہے۔ ‘‘ معلوم ہوا کہ آدمی نماز میں دل سے حاضر نہ ہو تو شیطان اپنا کام جاری رکھتا ہے۔ وہ صرف اس ذکر سے پیچھے ہٹتا ہے جس میں زبان کے ساتھ دل بھی شریک ہو۔