وَمِن شَرِّ حَاسِدٍ إِذَا حَسَدَ
اور حاسد کے شر سے جب [٦] وہ حسد کرے۔
1۔وَ مِنْ شَرِّ حَاسِدٍ اِذَا حَسَدَ: ’’ حَسَدَ ‘‘ کا معنی ہے کسی شخص پر اللہ کی نعمت سے جلناکہ یہ نعمت اسے کیوں ملی اور اس کے زوال کی تمنا کرنا۔ پھر خواہ یہ خواہش یا کوشش ہو کہ وہ حسد کرنے والے کو ملے یا نہ ہو۔ قباحت کے لحاظ سے حسد کے کئی درجے ہیں، سب سے بدتر یہ ہے کہ کسی شخص کو اللہ نے جو نعمت دی ہے اس سے چھن جانے کی تمنا کے ساتھ ساتھ قول و عمل کے ذریعے سے یہ کوشش بھی کرے کہ وہ نعمت اس سے چھن جائے۔ پھر بعض کی کوشش ہوتی ہے کہ اس سے چھن کر مجھے مل جائے اور بعض کو اس سے غرض نہیں ہوتی، بلکہ وہ اسی پر خوش ہوتے ہیں کہ اس کے پاس یہ نعمت نہیں رہی۔ دوسرا یہ کہ عملی طور پر تو اسے نقصان پہنچانے کی کوشش نہ کرے، لیکن دل میں یہ خواہش رکھے کہ اس کے پاس سے یہ نعمت نہ رہے۔ یہ دونوں صورتیں حرام ہیں۔ 2۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ حاسد کے شر سے پناہ مانگتے وقت ’’ اِذَا حَسَدَ ‘‘ ( جب وہ حسد کرے) کی قید کیوں لگائی؟ جواب یہ ہے کہ حاسد کے حسد کا نقصان دوسرے شخص کو اسی وقت ہوتا ہے جب وہ اپنے حسد کے تقاضے کے مطابق قول یا فعل سے اسے نقصان پہنچانے کی کوشش کرے، یا حسد کے تقاضے کے مطابق یہ خواہش رکھے کہ اس سے وہ نعمت چھن جائے۔ حسد کی ایک صورت یہ ہے کہ دل میں خیال آتا ہے کہ فلاں شخص کو یہ نعمت کیوں ملی، مگر آدمی اس خیال کو ہٹا دیتا ہے، نہ اسے نقصان پہنچانے کی کوشش کرتا ہے اور نہ ایسا ارادہ یا خواہش رکھتا ہے کہ اس سے وہ نعمت چھن جائے، اس پر مؤاخذہ نہیں۔ ایسے خیالات آ ہی جاتے ہیں، کیونکہ انسان کی طبیعت میں یہ بات رکھ دی گئی ہے کہ وہ اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ اس کا کوئی ہم جنس کسی خوبی میں اس سے بڑھ کر ہو، تو جو شخص حسد کے تقاضے پر عمل نہ کرے بلکہ ایسے خیال آنے پر انھیں دور کرنے کی کوشش کرے اور محسود (جس کے ساتھ حسد ہو) کے ساتھ احسان کرے، اس کے لیے دعا کرے اور اس کی خوبیاں عام بیان کرنا شروع کر دے، تاکہ دل میں اس بھائی کے ساتھ حسد کے بجائے محبت پیدا ہو جائے تو اس کے شر سے پناہ مانگنے کی کیا ضرورت ہے؟ اس کا حسد کے تقاضے پر عمل کرنے کے بجائے اس سے مقابلہ کرنا اور اسے دور کرنے کی کوشش کرنا تو ایمان کے اعلیٰ درجے کی علامت ہے اور حسد سے نجات پانے کا طریقہ بھی یہی ہے۔ 3۔ حسد کے حرام ہونے کی وجہ یہ ہے کہ حاسد دراصل اللہ تعالیٰ پر ناراض ہوتا ہے کہ اس نے اسے وہ نعمت کیوں دی۔ پھر بندے پر اس کے کسی جرم کے بغیر ناراض ہوتا ہے، کیونکہ اس نعمت کے حصول میں اس کا کچھ اختیار نہیں۔ تو حاسد دراصل اللہ کا بھی دشمن ہے اور اللہ کے بے گناہ بندوں کا بھی۔ 4۔ حسد کا علاج یہ ہے کہ بندہ سوچے کہ حسد کا نقصان دین و دنیا میں حسد کرنے والے ہی کو ہے، محسود کو کوئی نقصان نہیں، نہ دنیا میں نہ دین میں، بلکہ اسے دین و دنیا میں حاسد کے حسد سے فائدہ ہی حاصل ہوتا ہے۔ دین میں فائدہ یہ ہے کہ وہ مظلوم ہے، خصوصاً جب حاسد قول یا عمل سے اسے نقصان پہنچانے کی کوشش کرے، تو قیامت کو اسے ظلم کا بدلا ملے گا اور ظالم حاسد نیکیوں سے مفلس رہ جائے گا اور دنیاوی فائدہ یہ ہے کہ لوگوں کی دلی خواہش یہ ہوتی ہے کہ ان کے دشمن غم و فکر اور عذاب میں مبتلا رہیں اور حاسد جس عذاب اور مصیبت میں گرفتار ہے اس سے بڑی مصیبت اور کیا ہو سکتی ہے؟ وہ ہر وقت حسد کی آگ میں جل رہا ہوتا ہے اور اطمینان اور دلی سکون سے محروم ہوتا ہے۔ 5۔ حسد آدمی کو اللہ کی نافرمانی کی طرف لے جاتا ہے، اہل علم فرماتے ہیں کہ آسمان میں اللہ تعالیٰ کی سب سے پہلی نافرمانی حسد کی وجہ سے واقع ہوئی کہ ابلیس نے آدم علیہ السلام پر حسد کی وجہ سے اسے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا اور زمین پر پہلی نافرمانی، یعنی آدم علیہ السلام کے دو بیٹوں میں سے ایک کے دوسرے کو قتل کرنے کا باعث بھی یہی حسد تھا۔ برادران یوسف نے یوسف علیہ السلام اور ان کے والدین پر جو ظلم کیا اس کا باعث بھی حسد تھا۔ یہودی لوگ یہ جانتے ہوئے بھی کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم رسول برحق ہیں، ایمان نہ لائے تو اس کا باعث بھی یہی حسد تھا اور یہی حسد تھا جس کی بنا پرانھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو کر دیا۔ گرہوں میں پھونکنے والیوں کے شر کے پیچھے بھی عموماً حسد ہی کا جذبہ چھپا ہوتا ہے، اس لیے ان کے شر کے بعد حاسد کے شر سے پناہ مانگنے کی تلقین فرمائی۔ 6۔ بعض اوقات حسد کا لفظ ’’غِبْطَةٌ ‘‘(رشک اور ریس) کے معنی میں بھی آجاتا ہے، یعنی کسی شخص پر اللہ تعالیٰ کی نعمت دیکھ کر یہ خواہش کرنا کہ مجھے بھی یہ نعمت مل جائے، لیکن یہ خواہش نہ ہو کہ اس سے وہ نعمت چھن جائے۔ یہ خواہش حرام نہیں، مگر صرف دو چیزوں میں رشک کرنا پسندیدہ ہے، ابن عمر رضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( لاَ حَسَدَ إِلَّا فِي اثْنَتَيْنِ رَجُلٌ آتَاهُ اللّٰهُ الْقُرْآنَ فَهُوَ يَقُوْمُ بِهِ آنَاءَ اللَّيْلِ وَآنَاءَ النَّهَارِ وَ رَجُلٌ آتَاهُ اللّٰهُ مَالًا فَهُوَ يُنْفِقُهُ آنَاءَ اللَّيْلِ وَآنَاءَ النَّهَارِ )) [ مسلم، صلاۃ المسافرین و قصرھا، باب فضل من یقوم بالقرآن....: ۸۱۵۔ بخاري : ۵۰۲۵ ] ’’حسد (رشک کرنا) نہیں مگر دو چیزوں میں، ایک وہ آدمی جسے اللہ نے قرآن دیا تو وہ رات کی گھڑیوں اور دن کی گھڑیوں میں اس کے ساتھ قائم رہتا ہے اور ایک وہ آدمی جسے اللہ نے مال دیا ہے تو وہ رات اور دن کی گھڑیوں میں اس میں سے (نیک کاموں میں) خرچ کرتا رہتا ہے۔‘‘