سورة النسآء - آیت 135

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا قَوَّامِينَ بِالْقِسْطِ شُهَدَاءَ لِلَّهِ وَلَوْ عَلَىٰ أَنفُسِكُمْ أَوِ الْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ ۚ إِن يَكُنْ غَنِيًّا أَوْ فَقِيرًا فَاللَّهُ أَوْلَىٰ بِهِمَا ۖ فَلَا تَتَّبِعُوا الْهَوَىٰ أَن تَعْدِلُوا ۚ وَإِن تَلْوُوا أَوْ تُعْرِضُوا فَإِنَّ اللَّهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرًا

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

اے ایمان والو! اللہ کی خاطر انصاف پر قائم رہتے ہوئے گواہی دیا کرو خواہ وہ گواہی تمہارے اپنے یا تمہارے والدین یا قریبی رشتہ داروں کے خلاف [١٧٨] ہی پڑے۔ اگر کوئی فریق دولت مند ہے یا فقیر ہے، بہرصورت اللہ ہی ان دونوں کا تم سے زیادہ [١٧٩] خیر خواہ ہے۔ لہٰذا اپنی خواہش نفس کے پیچھے پڑ کر عدل کی بات کو چھوڑو نہیں۔ اور اگر گول مول سی [١٨٠] بات کرو یا سچی بات کہنے سے کترا جاؤ تو (جان لو کہ) جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے واقف ہے

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

كُوْنُوْا قَوّٰمِيْنَ بِالْقِسْطِ ....: یعنی انصاف پر پوری طرح قائم رہ کر اللہ کے لیے گواہی دو، چاہے وہ تمھارے خلاف ہی پڑے، یا والدین یا قرابت داروں کے اور اس میں تمھارا ذاتی نقصان ہی کیوں نہ ہو۔ (ابن کثیر) 2۔ اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ اولاد کی شہادت ماں باپ کے خلاف قبول ہو گی اور یہ ان کے ساتھ ”بِرٌّ“ یعنی احسان کے منافی نہیں ہے۔ والدین اور بھائی کی شہادت بھی سلف کے نزدیک مقبول ہے، مگر یہ اسی صورت میں ہے کہ جب وہ عادل ہوں اور ان پر تہمت نہ ہو۔ اسی تہمت کے پیش نظر بعض ائمہ نے میاں بیوی کی ایک دوسرے کے حق میں شہادت کو جائز رکھا ہے اور بعض نے رد کیا ہے۔ (قرطبی ) اِنْ يَّكُنْ غَنِيًّا اَوْ فَقِيْرًا ....: یعنی جس کے خلاف تمھاری گواہی پڑ رہی ہے وہ دولت مند ہے تب اور غریب ہے تب، تم اللہ تعالیٰ اور اس کی شریعت سے بڑھ کر اس کے خیر خواہ نہیں ہو سکتے، لہٰذا نہ تم دولت مند کی دولت مندی کی وجہ سے اس کی بے جا حمایت یا مخالفت کرو اور نہ غریب پر ترس کھا کر اس کی بے جا رعایت کرو، بلکہ ہر صورت میں اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق سچی گواہی دو۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ غریب کی غربت تمھیں اس کی بے جا حمایت پر آمادہ کر دے، تم اللہ تعالیٰ سے بڑھ کر اس کے بندوں کے، خواہ وہ امیر ہوں یا غریب، نہ زیادہ خیر خواہ ہو سکتے ہو اور نہ زیادہ ان پر حق رکھنے والے۔ وَ اِنْ تَلْوٗۤا.... : ’’لَوَي يَلْوِيْ لَيًّا (ض)‘‘ پیچ دینا، یعنی اگر تم زبان کو پیچ دے کر اس طرح بات بنا کر پیش کرو کہ جس کے خلاف گواہی پڑنی چاہیے وہ بچ جائے، یا ’’تُعْرِضُوْا ‘‘ یعنی گواہی دینے ہی سے پہلو بچاؤ، بلکہ چھپا جاؤ تو بے شک تم جو کچھ کرتے ہو اللہ تعالیٰ ہمیشہ سے اس سے پوری طرح با خبر ہے، اس کی پوری سزا اللہ کے ہاں پاؤ گے۔ یہ نہ سمجھنا کہ ہم نے صاف جھوٹ نہیں بولا تو جھوٹی گواہی کے گناہ سے بچ جائیں گے۔