ثُمَّ لَتُسْأَلُنَّ يَوْمَئِذٍ عَنِ النَّعِيمِ
پھر اس دن ضرور تم سے نعمتوں کے بارے میں باز پرس [٦] ہوگی۔
ثُمَّ لَتُسْـَٔلُنَّ يَوْمَىِٕذٍ عَنِ النَّعِيْمِ: یعنی صحت و عافیت، کھانے پینے اور دوسری تمام نعمتوں کے بارے میں سوال ہوگا کہ ان کا کہاں تک شکر ادا کیا؟ احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی چھوٹی سے چھوٹی لذت اور معمولی سے معمولی عافیت ایسی نہیں جس کے بارے میں سوال نہ ہو۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر و عمر رضی اللہ عنھما بھوک کی وجہ سے گھر سے نکلے اور ایک انصاری کے گھر آئے، اس نے مہمانی میں کھجوریں اور بکری کا گوشت پیش کیا۔ آپ نے گوشت اور کھجوریں کھائیں اور اوپر سے شیریں پانی پیا۔ جب خوب سیر ہوچکے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( وَالَّذِيْ نَفْسِيْ بِيَدِهِ! لَتُسْأَلُنَّ عَنْ هٰذَا النَّعِيْمِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ )) [ مسلم، الأشربۃ، باب جواز استتباعہ غیرہ....: ۲۰۳۸ ] ’’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! تم سے قیامت کے دن اس نعمت کے بارے میں ( بھی) سوال ہوگا۔‘‘