أَلَمْ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَ
کیا ہم نے آپ کے لیے آپ کا سینہ نہیں کھول [١] دیا ؟
اَلَمْ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَ: سینہ کھول دینے سے مراد اسلام کے حق ہونے پر اطمینان، دل کا نورِ ہدایت سے روشن ہونا اور ذکرِ الٰہی سے نرم ہونا ہے، جیساکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿فَمَنْ يُّرِدِ اللّٰهُ اَنْ يَّهْدِيَهٗ يَشْرَحْ صَدْرَهٗ لِلْاِسْلَامِ ﴾ [الأنعام : ۱۲۵ ]’’تو جسے اللہ ہدایت دینے کا ارادہ کرتا ہے اس کا سینہ اسلام کے لیے کھول دیتا ہے۔‘‘ اور فرمایا : ﴿ اَفَمَنْ شَرَحَ اللّٰهُ صَدْرَهٗ لِلْاِسْلَامِ فَهُوَ عَلٰى نُوْرٍ مِّنْ رَّبِّهٖ فَوَيْلٌ لِّلْقٰسِيَةِ قُلُوْبُهُمْ مِّنْ ذِكْرِ اللّٰهِ اُولٰٓىِٕكَ فِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ ﴾ [ الزمر : ۲۲ ] ’’تو کیا وہ شخص جس کا سینہ اللہ نے اسلام کے لیے کھول دیا ہے، سو وہ اپنے رب کی طرف سے نور پر ہے ( وہ اس شخص کی طرح ہو سکتا ہے جو ایسا نہیں؟) پس ویل ہے ان لوگوں کے لیے جن کے دل اللہ کی یاد کی طرف سے سخت ہیں، یہ لوگ کھلی گمراہی میں ہیں۔‘‘ اس کے علاوہ شرح صدر سے مراد طبیعت کا رسالت کی ذمہ داریاں اٹھانے کے لیے خوش دلی کے ساتھ آمادہ ہونا بھی ہے، جیساکہ موسیٰ علیہ السلام کو فرعون کے پاس جانے کا حکم ہوا تو انھوں نے کہا : ﴿وَ يَضِيْقُ صَدْرِيْ ﴾ [ الشعراء : ۱۳ ] ’’اور میرا سینہ اس سے تنگ ہوتا ہے۔‘‘ اور دعا کی : ﴿رَبِّ اشْرَحْ لِيْ صَدْرِيْ ﴾ [ طٰہٰ : ۲۵ ] ’’اے میرے رب! میرے لیے میرا سینہ کھول دے۔‘‘ شرح صدر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بچپن میں اور نزول وحی کے آغاز میں اور معراج کی رات شق صدر کے بعد آپ کے سینے کو ایمان و حکمت سے بھر دینا بھی شامل ہے، جیسا کہ صحیحین اور دوسری کتب احادیث میں آیا ہے۔