لَا يَصْلَاهَا إِلَّا الْأَشْقَى
اس میں وہی گرے گا جو بڑا بدبخت ہو
لَا يَصْلٰىهَا اِلَّا الْاَشْقَى....: اسی آیت سے مُرجیہ ( ایک باطل فرقہ جس کے نزدیک ایمان صرف دل کی تصدیق کا نام ہے) نے استدلال کیا ہے کہ جہنم میں صرف کافر ہی جائیں گے، کوئی مسلمان خواہ کتنا ہی گناہ گار ہو وہ جہنم میں نہیں جائے گا۔ لیکن یہ عقیدہ ان صریح آیات و احادیث کے خلاف ہے جن سے معلوم ہوتا ہے کہ بہت سے مسلمان بھی جن کو اللہ تعالیٰ کچھ سزا دینا چاہے گا، کچھ عرصہ کے لیے جہنم میں جائیں گے، پھر وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ، ملائکہ اور دیگر صالحین کی شفاعت یا محض اللہ کی رحمت سے نکال لیے جائیں گے۔ اس کی دلیل یہ آیت ہے : ﴿ اِنَّ اللّٰهَ لَا يَغْفِرُ اَنْ يُّشْرَكَ بِهٖ وَ يَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِكَ لِمَنْ يَّشَآءُ ﴾ [ النساء : ۱۱۶ ] ’’بے شک اللہ یہ بات معاف نہیں کرے گا کہ اس کے ساتھ شریک ٹھہرایا جائے اور اس کے علاوہ جسے چاہے گا معاف کر دے گا۔‘‘ اب اگر وہ شخص جو شرک نہیں کرتا بلکہ مسلمان ہے، وہ جہنم میں جائے گا ہی نہیں تو ’’ وَ يَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِكَ لِمَنْ يَّشَآءُ ‘‘ (اس کے علاوہ جسے چاہے گا معاف کر دے گا) بالکل بے معنی کلام بن جائے گا، پھر تو یوں کہنا چاہیے کہ اس کے علاوہ وہ سب کچھ معاف کر دے گا، ’’ لِمَنْ يَّشَآءُ ‘‘ (جسے چاہے گا) کی شرط کی ضرورت ہی نہیں۔ صحیح بخاری میں مذکور احادیثِ شفاعت سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے۔ اس آیت میں جو کہا گیا ہے کہ جہنم میں صرف بڑے بدبخت داخل ہوں گے، اس کا مطلب یہ ہے کہ جو لوگ پکے کافر اور نہایت بدبخت ہیں جہنم دراصل انھی کے لیے بنائی گئی ہے، جس میں وہ لازمی اور حتمی طور پر اور ہمیشہ کے لیے داخل ہوں گے۔ اگر کچھ نافرمان قسم کے مسلمان جہنم میں جائیں گے تو وہ لازمی اور حتمی طور پر اور ہمیشہ کے لیے نہیں جائیں گے، بلکہ بطور سزا داخل ہوں گے اور ان کا یہ دخول عارضی ہوگا۔