وَجَاءَ رَبُّكَ وَالْمَلَكُ صَفًّا صَفًّا
اور آپ کا پروردگار آئے [١٦] گا اس حال میں کہ فرشتے صف بستہ کھڑے ہوں گے
1۔ وَ جَآءَ رَبُّكَ وَ الْمَلَكُ صَفًّا صَفًّا: اور دوسرے نفخہ کے ساتھ تمام لوگ زندہ ہو کر اس چٹیل میدان میں کھڑے ہو کر انتظار کر رہے ہوں گے، اس وقت رب تعالیٰ جس طرح اس کی شان کے لائق ہے نزول فرمائے گا۔ ساتھ ہی فرشتے صف در صف آئیں گے، زمین اپنے رب کے نور سے چمک اٹھے گی اور اعمال نامے پیش کیے جائیں گے۔ انبیاء اور گواہوں کو لایا جائے گا اور لوگوں کے درمیان حق کے ساتھ فیصلے کیے جائیں گے اور ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔ دیکھیے سورۂ زمر( ۶۹) کی تفسیر۔ 2۔ اس مقام پر اللہ تعالیٰ نے خود صاف الفاظ میں اس دن اپنے آنے کا ذکر فرمایا ہے۔ بعض لوگوں نے اس کا انکار کیا ہے اور اللہ تعالیٰ کےآنےکے عجیب عجیب مطلب نکالے ہیں۔ چنانچہ کسی نے کہا رب کا حکم آئے گا، کسی نے کہا یہ صرف تمثیلی انداز ہے، مطلب صرف یہ ہے کہ اس وقت اللہ تعالیٰ کا رعب اس طرح طاری ہوگا جس طرح بادشاہوں کے آنے کے وقت ہوتا ہے۔ بعض بزرگوں نے ترجمے میں تبدیلی کرکے حاشیہ لکھا ہے : ’’اصل الفاظ ہیں ’’ وَ جَآءَ رَبُّكَ ‘‘ جن کا لفظی ترجمہ ہے ’’اور تیرا رب آئے گا‘‘ لیکن ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونے کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا۔‘‘ ان بزرگوں کی غلطی کی اصل وجہ یہ ہے کہ انھوں نے اللہ تعالیٰ کو اپنے جیسا سمجھا کہ انسان ایک جگہ سے دوسری جگہ جائے تو اس کا پہلی جگہ سے منتقل ہونا لازم ہوتا ہے، حالانکہ اللہ تعالیٰ کے آسمانِ دنیا پر اترنے یا زمین پر آنے کا یہ مطلب ہے ہی نہیں کہ وہ عرش پر نہیں رہا۔ اب تو اللہ کی مخلوق میں بھی اس کے عجائبات ظاہر ہو رہے ہیں کہ بجلی اپنے مستقر میں ہونے کے باوجود ریموٹ کے ذریعے سے بغیر تار کے کہاں تک پہنچ جاتی ہے، خالق کی صفت تو مخلوق سے بہت ہی برتر ہے۔ پھر اس میں صرف یہی خرابی نہیں کہ اللہ کے آنے کی صفت کا انکار کیا، بلکہ اسے مخلوق سےبھی عاجز جانا کہ مخلوق جہاں چاہےآجا سکتی ہے،مگر خالق میدان محشر میں فیصلےکےلیے بھی نہیں آ سکتا۔ مومن کا کام یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے خود فرما دیا کہ وہ قیامت کے دن آئے گا تو وہ اس پر ایمان رکھے اور یہ بات اللہ کے سپرد کر دے کہ وہ کس طرح آئے گا۔ یقیناً وہ اسی طرح آئے گا جس طرح اس کی شان کے لائق ہے اور جس کی تفصیل سمجھنا عاجز مخلوق کے بس کی بات ہی نہیں ہے۔