فَأَمَّا الْإِنسَانُ إِذَا مَا ابْتَلَاهُ رَبُّهُ فَأَكْرَمَهُ وَنَعَّمَهُ فَيَقُولُ رَبِّي أَكْرَمَنِ
مگر انسان کا یہ حال ہے کہ جب اس کا پروردگار اسے آزمائش میں ڈالتا ہے اور اسے عزت اور نعمت دیتا ہے تو کہتا ہے کہ : میرے پروردگار نے مجھے عزت بخشی
فَاَمَّا الْاِنْسَانُ اِذَا مَا ابْتَلٰىهُ ....: قیامت کے منکرین کے نزدیک چونکہ سبھی کچھ دنیا ہے اس لیے ان کا خیال یہ ہے کہ دنیا میں جو آسودہ حال ہے اللہ تعالیٰ اس سے راضی ہے اور جو تنگ حال ہے اللہ تعالیٰ اس پر ناراض ہے۔ فرمایا یہ بات ہر گز درست نہیں، فرعون اور دوسرے لوگوں کے واقعات ابھی تم نے سنے، ان کی خوش حالی اور پھر ان پر آنے والے عذاب کو یاد کرو تو سمجھ لو گے کہ دنیا کی آسودہ حالی یا بدحالی اللہ کی طرف سے آزمائش ہے کہ کافر خوش حالی میں سرکشی اور تنگی میں شکوہ و نا شکری کرکے ناکام ہو جاتے ہیں اور مومن نعمت پر شکر کے ساتھ اور مصیبت میں صبر کے ساتھ کامیاب ہو جاتے ہیں۔ تمھارا حال تو یہ ہے کہ بجائے اس کے کہ خوش حالی کی نعمت کا شکر ادا کرو اور بطور شکر مستحقین پر خرچ کرو، تم اتنا بھی نہیں کرتے کہ یتیم کے ساتھ عزت کا برتاؤ ہی کر لو، یا مسکین کو کھلاتے نہیں تو کسی دوسرے کو ترغیب ہی دے دو۔ تم تو میراث کا مال بھی جو تمھیں بغیر محنت کے مل گیا ہے، عطا فرمانے والے کا شکر ادا کرتے ہوئے اپنے حصے پر قناعت کے بجائے سارا ہی لپیٹ جاتے ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ تم مال عطا فرمانے والے کے بجائے مال سے محبت کرتے ہو اور حد سے بڑھ کر کرتے ہو۔