إِلَّا مَا شَاءَ اللَّهُ ۚ إِنَّهُ يَعْلَمُ الْجَهْرَ وَمَا يَخْفَىٰ
بجز اس کے جو [٦] اللہ چاہے، وہ ظاہر کو بھی جانتا ہے اور پوشیدہ بھی
1۔ اِلَّا مَا شَآءَ اللّٰهُ: یعنی اللہ تعالیٰ جو چاہے بھلا دے۔ بعض اوقات کچھ آیات اس طرح بھی منسوخ کی جاتی تھیں کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھلا دی جاتیں، جیسا کہ فرمایا : ﴿ مَا نَنْسَخْ مِنْ اٰيَةٍ اَوْ نُنْسِهَا نَاْتِ بِخَيْرٍ مِّنْهَا اَوْ مِثْلِهَا ﴾ [ البقرۃ : ۱۰۶ ] ’’جو آیت ہم منسوخ کرتے ہیں یا بھلا دیتے ہیں اس سے بہتر یا اس جیسی آیت لے آتے ہیں۔‘‘ 2۔ اِنَّهٗ يَعْلَمُ الْجَهْرَ وَ مَا يَخْفٰى: ’’وہ کھلی اور چھپی سب باتیں جانتا ہے‘‘ یہ بات اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں کئی جگہ بیان فرمائی ہے کہ وہ کھلی اور چھپی سب باتیں جانتا ہے، کوئی بات اونچی آواز سے کی گئی ہو یا آہستہ یا بالکل مخفی ہو وہ سب کچھ جانتا ہے۔ (دیکھیے رعد : ۱۰۔ طہ : ۷ ۔ انعام : ۳ ۔ انبیاء : ۱۱۰۔ ملک : ۱۳) ابن جوزی کے استاذ وزیر ابن ہبیرہ فرماتے ہیں کہ میں نے اس بات پر بہت غور کیا کہ چھپی ہوئی باتوں کو تو واقعی صرف اللہ تعالیٰ جانتا ہے، مگر بلند آواز سے کی گئی باتیں تو ہم بھی جانتے اور سمجھتے ہیں، پھر اللہ تعالیٰ ان باتوں کے جاننے کو اپنی خاص صفت کے طور پر کیوں بیان فرما رہے ہیں؟ پھر میری سمجھ میں یہ بات آئی کہ بلند آواز کے ساتھ اگر ایک وقت میں کئی آدمی بولنا شروع کر دیں تو ہمیں کچھ پتا نہیں چلتا، یہ صرف اللہ تعالیٰ ہی کی شان ہے کہ وہ ساری مخلوق کی بلند آوازسے کی ہوئی باتیں سنتا ہے اور چھپی ہوئی باتیں بھی۔ اس مقام پر یہ صفت بیان کرنے کی حکمت یہ معلوم ہوتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم ہو رہا ہے کہ جب جبریل علیہ السلام پڑھیں تو آپ یاد کرنے کے لیے ساتھ ساتھ نہ پڑھیں، ان کے ساتھ ساتھ پڑھیں گے تو سمجھنا مشکل ہو گا کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں، یہ اللہ ہی کی شان ہے کہ بلند آواز سے کی گئی باتیں ہوں، خواہ کروڑوں لوگوں کی ہوں یا چھپی ہوئی، وہ سب جانتا ہے ۔