سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى
اپنے پروردگار کے نام کی تسبیح [١] کیجیے جو سب سے برتر ہے
1۔ سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْاَعْلَى: ’’تَسْبِيْحٌ‘‘ کا معنی ہے ’’ہربرائی سے پاک کرنا۔‘‘ رب الاعلیٰ کے نام کو پاک کرنے کے حکم کے مفہوم میں کئی چیزیں شامل ہیں، پہلی یہ کہ ’’سُبْحَانَ رَبِّيَ الْأَعْلٰی‘‘ کہو۔ چنانچہ ابن عباس رضی اللہ عنھما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب ’’ سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْاَعْلَى ‘‘ پڑھتے توکہتے : (( سُبْحَانَ رَبِّيَ الْأَعْلٰي)) [ أبو داؤد، الصلاۃ ، باب الدعاء في الصلاۃ : ۸۸۳، وصححہ الألباني ] ’’پاک ہے میرا رب جو سب سے بلندہے۔‘‘ اس کے علاوہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدے میں اس حکم پر عمل کے لیے ’’سُبْحَانَ رَبِّيَ الْأَعْلٰي‘‘ کم از کم تین دفعہ پڑھتے تھے۔ [ دیکھیے نسائي، التطبیق، باب نوع آخر : ۱۱۳۴، صحیح] دوسری یہ کہ اپنے رب کو ہر قسم کے نقص ، عیب، کمزوری اور کسی بھی شریک سے پاک سمجھو اور اس کا اعلان کرتے رہو، تاکہ مشرکین اور باطل عقیدہ لوگوں کے کانوں میں یہ آواز پڑتی رہے۔ تیسری یہ کہ رب تعالیٰ کے نام کی تعظیم کرتے رہو، اسے ایسے طریقے سے یا ایسی جگہ یا ایسے الفاظ میں یاد نہ کرو جو اس کی شان کے لائق نہ ہو، یا جس سے اس کی بے ادبی ہوتی ہو یا استہزا کا پہلو نکلتا ہویا اس کے ساتھ کسی کے شریک ٹھہرائے جانے کا اندیشہ ہو۔ اس کے لیے سب سے زیادہ سلامتی کی راہ یہ ہے کہ اس کے لیے وہی نام استعمال کیے جائیں جو خود اس نے اپنے لیے استعمال کیے ہیں۔ چوتھی یہ کہ اللہ کا نام کسی مخلوق پر نہ بولو، مثلاً عبدالرحمن کو رحمان مت کہو۔ اگر لفظ مشترک ہو تو مخلوق پر اس انداز سے نہ بولو جس سے خالق کو یاد کرنا چاہیے۔ 2۔ ’’اپنے رب کے نام کی تسبیح کر ‘‘ یا ’’ اپنے رب کی تسبیح کر‘‘ دونوں کا مفہوم ایک ہی ہے، کیونکہ ’’ رب‘‘ بھی اس کا نام ہے۔ لفظ ’’نام‘‘ اس لیے بڑھایا کہ تم اللہ تعالیٰ کی حقیقت اور کنہ تک تو پہنچ ہی نہیں سکتے، تمھاری رسائی اس کے نام تک ہے، سو اس کی تسبیح کرتے رہو۔ بعض نے فرمایا کہ جب نام کی تسبیح ضروری ٹھہری تو اس کی ذات تو بالاولیٰ تسبیح کی حق دار ہے۔