إِنَّهُ لَقَوْلٌ فَصْلٌ
کہ وہ (قرآن) حق کو باطل سے الگ کرنے والا ہے
اِنَّهٗ لَقَوْلٌ فَصْلٌ: بعض مفسرین نے اس کی تفسیر یہ کی ہے کہ یہ قرآن قول فصل ہے، اس میں شک نہیں کہ قرآن قول فصل ہے، مگر پچھلی آیات اور قسموں کی مناسبت کو مد نظر رکھیں تو یہاں مراد یہ معلوم ہوتی ہے کہ قول فصل سے مراد قیامت بپا کرنے اور انسان کو دوبارہ زندہ کرنے پر قادر ہونے کی بات ہے، یعنی آسمان سے بار بار برسنے والی بارش اور اس کی نمی سے پھٹ کر بیج کو اُگا کر باہر لے آنے والی زمین شاہد ہے کہ تمھارے دوبارہ زندہ کیے جانے کی بات دو ٹوک بات ہے، قیامت کے دن تم بھی اسی طرح زندہ ہو کر زمین سے نکل آؤ گے۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( مَا بَيْنَ النَّفْخَتَيْنِ أَرْبَعُوْنَ… ثُمَّ يُنْزِلُ اللّٰهُ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَيَنْبُتُوْنَ كَمَا يَنْبُتُ الْبَقْلُ، لَيْسَ مِنَ الإِْنْسَانِ شَيْءٌ إِلَّا يَبْلٰی إِلَّا عَظْمًا وَّاحِدًا وَ هُوَ عَجْبُ الذَّنَبِ وَمِنْهُ يُرَكَّبُ الْخَلْقُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ )) [ بخاري، التفسیر، باب : ﴿یوم ینفخ فی الصور....﴾ : ۴۹۳۵۔ مسلم : ۲۹۵۵ ] ’’دونفخوں کے درمیان چالیس کا فاصلہ ہوگا… پھر آسمان سے بارش برسے گی تو لوگ اس طرح اُگیں گے جس طرح سبزی اُگتی ہے اور انسان کا کوئی حصہ نہیں جو بوسیدہ نہ ہو، سوائے ایک ہڈی کے اور وہ دم کی ہڈی ہے، قیامت کے دن اسی سے مخلوق کو جوڑا جائے گا۔‘‘