فَلْيَنظُرِ الْإِنسَانُ مِمَّ خُلِقَ
لہٰذا انسان کو یہ دیکھنا چاہیے کہ وہ کس چیز [٤] سے پیدا کیا گیا ہے؟
1۔ فَلْيَنْظُرِ الْاِنْسَانُ مِمَّ خُلِقَ ....: ایک مقرر وقت تک انسان کی ذات کی حفاظت اور اعمال کی نگہداشت یوم حساب کے لیے ہے، اگر اسے اپنا دوبارہ زندہ کیا جانا محال معلوم ہوتا ہے تو اپنی پیدائش پر غور کر لے کہ کس چیز سے ہوتی ہے؟ ایک اچھلنے والے پانی سے۔ جب اللہ تعالیٰ نے پانی جیسی مائع چیز پر صورت گری کرکے ایک کامل انسان پیدا کر دیا، جس میں مکمل اعضائے جسم ، حیات، قوت، عقل اور ادراک سب کچھ موجود ہے تو یقیناً وہ اس انسان کو اس کی مٹی سے دوبارہ پہلی صورت میں پیدا کرنے پر بھی قادر ہے۔ بتاؤ، انسان کو پانی سے بنانا مشکل ہے یا اسی کی خاک سے دوبارہ بنا دینا؟ اور پہلی دفعہ بغیر نمونے کے پیدا کرنا مشکل ہے یا پہلے نمونے پر دوبارہ بنا دینا؟ 2۔ منی اگرچہ بظاہر خصیوں میں بنتی ہے، مگر جب پیدا کرنے والے نے بتا دیا کہ اس کا اصل مرکز پیٹھ کی ہڈی اور پسلیوں کے درمیان ہے تو اس حقیقت میں شک کی کوئی گنجائش نہ رہی۔ بعض اہلِ علم کے بیان کا خلاصہ یہ ہے کہ جدید طب نے بھی تسلیم کیا ہے کہ جنین کے خصیے ریڑھ کی ہڈی اور پسلیوں کے درمیان گردوں کے قریب ہوتے ہیں، پھر ولادت سے پہلے اور بعض اوقات ولادت سے کچھ دیر بعد فوطوں میں اتر آتے ہیں، مگر پھر بھی ان کے اعصاب اور رگوں کا مقام وہی ’’ بَيْنِ الصُّلْبِ وَ التَّرَآىِٕبِ ‘‘ رہتا ہے، بلکہ ان کی شریان بھی پیٹھ کے قریب شہ رگ (أَوْرَطٰي) سے نکلتی ہے اور پورے پیٹ سے گزرتی ہوئی ان کو خون مہیا کرتی ہے۔ گویا خصیتین بھی اصل میں پیٹھ کا جز ہیں جو جسم کا زیادہ درجۂ حرارت برداشت نہ کر سکنے کی وجہ سے باہر فوطوں میں منتقل کر دیے گئے ہیں۔ اب مادۂ منویہ اگرچہ خصیتین میں پیدا ہوتا اور کیسۂ منی میں جمع ہوتا ہے، مگر اسے خون پہنچانے اور حرکت دینے والا مرکز ’’ بَيْنِ الصُّلْبِ وَ التَّرَآىِٕبِ ‘‘ ہی ہے۔ دماغ سے اعصاب کے ذریعے سے جب اس مرکز کو حکم پہنچتا ہے تو اس مرکز کی تحریک سے کیسۂ منی سکڑتا ہے اور مائِ دافق پچکاری کی طرح اچھل کر نکلتا ہے۔ الحمدللہ جدید طب بھی اس حقیقت کو معلوم کرنے میں کامیاب ہو گئی۔ بالفرض اگر وہ اس حقیقت تک نہ پہنچ پاتی تو قرآن کا بیان پھر بھی اٹل حقیقت تھا۔ قصور انسانی تجربات و مشاہدات کا تھا جو اپنی نارسائی کی وجہ سے خالق کی بیان کردہ حقیقت تک نہ پہنچ سکے۔