اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ
ہمیں سیدھی [١٣] راہ پر استقامت عطا فرما
1۔ اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ: ہدایت کا ایک معنی نرمی اور مہربانی کے ساتھ راستہ بتانا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا : ﴿وَ اِنَّكَ لَتَهْدِيْۤ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍ﴾ [ الشوریٰ : ۵۲ ] ’’اور بے شک تو یقیناً سیدھے راستے کی طرف راہنمائی کرتا ہے۔‘‘ یہ ہدایت اللہ تعالیٰ، اس کے رسول اور دوسرے لوگ سبھی کر سکتے ہیں ۔ہدایت کا دوسرا معنی راستے پر چلنے کی توفیق دینا ہے، یہ صرف اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو مخاطب کرکے فرمایا : ﴿اِنَّكَ لَا تَهْدِيْ مَنْ اَحْبَبْتَ وَ لٰكِنَّ اللّٰهَ يَهْدِيْ مَنْ يَّشَآءُ﴾ [ القصص : ۵۶ ] ’’بے شک تو ہدایت نہیں دیتا جسے تو دوست رکھے اور لیکن اللہ ہدایت دیتا ہے جسے چاہتا ہے۔‘‘ ’’الصِّرَاطَ ‘‘ اس کا اصل ’’سِرَاطٌ‘‘ ہے، جو ’’سَرَطَ يَسْرُطُ سَرَطًا، سَرَطَانًا (ن، ع) ‘‘ سے مشتق ہے، سین کو صاد سے بدل دیا گیا، اس کا معنی نگلنا ہے۔ ’’سِرَاطٌ‘‘ کا معنی واضح راستہ ہے، کیونکہ اس پر چلنے والا اس طرح غائب ہو جاتا ہے جیسے نگلا ہوا کھانا غائب ہو جاتا ہے۔ ’’الْمُسْتَقِيْمَ‘‘ ’’قَامَ يَقُوْمُ‘‘ میں سے باب استفعال سے اسم فاعل ہے، جو اصل میں ’’مُسْتَقْوِمٌ‘‘ ہے، معنی اس کا وہی ہے جو ’’قَامَ يَقُوْمُ‘‘ کا ہے۔ حروف کی زیادتی سے معنی میں تاکید پیدا ہو گئی، بالکل سیدھا راستہ۔ 2۔پچھلی آیت میں ’’ اِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ ‘‘سے سوال پیدا ہوتا تھا کہ کیا مدد چاہتے ہو؟ اللہ تعالیٰ نے جواب یہ سکھایا کہ کہو پروردگارا! ہمیں زندگی کے ہر لمحے میں اور اپنے ہر کام میں تیری ہدایت کی ضرورت ہے، کیونکہ اگر تو نہ بتائے تو ہم ظلوم و جہول کسی چیز کے متعلق جان ہی نہیں سکتے کہ اس میں صحیح راستہ کیا ہے۔ اگر جان بھی لیں تو اپنے نفس کی کمزوریوں ، شہوت، غضب، حسد، طمع، بخل اور کبر وغیرہ کی وجہ سے اور شیطان اور دوسرے دشمنوں کی وجہ سے اس صحیح راستے پر چلنا اور قائم رہنا تیری توفیق کے بغیر ممکن نہیں ، اس لیے ہماری درخواست ہے کہ ہر کام اور ہر لمحے میں ہمیں سیدھے راستے کو جاننے کی اور اس پر چلنے کی توفیق عطا فرما۔ 3۔ بعض لوگ یہاں ایک سوال ذکر کرتے ہیں کہ جب ہم پہلے ہی ہدایت پر ہیں تو پھر ہدایت کی درخواست کا کیا مطلب؟ اس کا جواب وہ یہ دیتے ہیں کہ مقصد یہ ہے کہ ہمیں ہدایت پر قائم رکھ۔ یہ مطلب بھی درست ہے، مگر آپ خود سوچ لیں کہ انسان کو ہر لمحے کسی نہ کسی کام کے متعلق فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ مجھے اس میں کیا کرنا ہے، تھوڑی سی لغزش اسے بہت دور پہنچا سکتی ہے، اس لیے یہ کہنا کہ ہم ہر وقت اور ہر کام میں ہدایت پر ہیں ، بہت بڑی دلیری کی بات ہے۔ اس لیے یہ حقیقت تسلیم کرتے ہوئے کہ اللہ تعالیٰ کی ہدایت کے بغیر ہم کسی بھی قدم پر گمراہی کا شکار ہو سکتے ہیں ، ہر وقت اللہ تعالیٰ سے ہدایت مانگتے رہنا لازم ہے۔ 4۔ ’’ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ ‘‘سے مراد دین اسلام ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ تک اور جنت تک پہنچانے والا یہی واضح، صاف اور سیدھا راستہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے خود اس کی صراحت فرمائی : ﴿ قُلْ اِنَّنِيْ هَدٰىنِيْ رَبِّيْۤ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍ دِيْنًا قِيَمًا مِّلَّةَ اِبْرٰهِيْمَ حَنِيْفًا وَ مَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ () قُلْ اِنَّ صَلَاتِيْ وَ نُسُكِيْ وَ مَحْيَايَ وَ مَمَاتِيْ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ () لَا شَرِيْكَ لَهٗ وَ بِذٰلِكَ اُمِرْتُ وَ اَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِيْنَ ﴾ [ الأنعام : ۱۶۱ تا ۱۶۳ ] ’’کہہ دے بے شک مجھے تو میرے رب نے سیدھے راستے کی طرف راہنمائی کر دی ہے جو مضبوط دین ہے، ابراہیم کی ملت، جو ایک ہی طرف کا تھا اور مشرکوں سے نہ تھا۔ کہہ دے بے شک میری نماز اور میری قربانی اور میری زندگی اور میری موت اللہ کے لیے ہے جو جہانوں کا رب ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں اور مجھے اسی کا حکم دیا گیا ہے اور میں مسلمین (حکم ماننے والوں ) میں سب سے پہلا ہوں ۔‘‘ نواس بن سمعان رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’اللہ تعالیٰ نے صراط مستقیم (سیدھے راستے) کی مثال بیان فرمائی۔ اس راستے کے دونوں طرف دو دیواریں ہیں جن میں کھلے ہوئے دروازے ہیں ۔ ان دروازوں پر پردے لٹکے ہوئے ہیں اور اس راستے کے دروازے پر ایک بلانے والا ہے جو کہتا ہے : ’’اے لوگو! تم سب اس راستے میں داخل ہو جاؤ اور ٹیڑھے مت ہونا۔‘‘ اور ایک بلانے والا اس راستے کے اوپر کنارے سے آواز دے رہا ہے۔ جب کوئی انسان ان دروازوں میں سے کسی کو کھولنا چاہتا ہے تو وہ کہتا ہے : ’’افسوس تجھ پر! اسے مت کھول، کیونکہ اگر تو اسے کھولے گا تو اس میں داخل ہو جائے گا۔‘‘ سو ’’الصِّرَاطَ ‘‘ (وہ راستہ) اسلام ہے اور دونوں دیواریں اللہ تعالیٰ کی حدود ہیں اور کھلے دروازے اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ چیزیں ہیں اور راستے کے شروع میں بلانے والی چیز اللہ کی کتاب ہے اور راستے کے اوپر کنارے والا اللہ تعالیٰ کا نصیحت کرنے والا ہے جو ہر مسلم کے دل میں ہے۔‘‘ [ مسند أحمد :4؍182، ۱۸۳، ح : ۱۷۶۵۲۔ ترمذی : ۲۸۵۹، قال ابن کثیر حسن صحیح و صححہ الألبانی والسیوطی ] معلوم ہوا صراط مستقیم اسلام ہے جو ہمارے پاس کتاب و سنت کی صورت میں موجود ہے، اس لیے جب کوئی کتاب و سنت سے ہٹ کر کسی شخصیت یا گروہ کے پیچھے لگتا ہے تو وہ صراط مستقیم سے ہٹ جاتا ہے، پھر اس کے لیے منزل مقصود جنت تک پہنچنا کسی صورت ممکن نہیں ، جب تک ان تمام ٹیڑھی راہوں سے ہٹ کر کتاب و سنت کی واضح، کشادہ، روشن اور سیدھی راہ پر نہیں آتا۔ 5۔ ’’ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ ‘‘ میں پورا اسلام اور اس کے احکام آ گئے، باقی قرآن و سنت اس کی تفصیل ہے۔