إِلَّا الْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ وَالْوِلْدَانِ لَا يَسْتَطِيعُونَ حِيلَةً وَلَا يَهْتَدُونَ سَبِيلًا
مگر جو مرد، عورتیں اور بچے فی الواقع کمزور اور [١٣٥] بے بس ہیں اور وہاں سے نکلنے کی کوئی تدبیر اور راہ نہیں پاتے، امید ہے کہ اللہ ایسے لوگوں کو معاف فرما دے
1۔ اِلَّا الْمُسْتَضْعَفِيْنَ: اس آیت میں ان لوگوں کو مستثنیٰ قرار دیا ہے جو واقعی بے بس اور معذور تھے اور ہجرت نہیں کر سکتے تھے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں : ’’میں اور میری والدہ ان لوگوں میں سے تھے جنھیں اللہ تعالیٰ نے معذور قرار دیا۔‘‘ [ بخاری، التفسیر، باب :﴿وما لکم لا تقاتلون… ﴾ : ۴۵۸۸ ] ان لوگوں میں عیاش بن ابی ربیعہ اور سلمہ بن ہشام وغیرہ بھی شامل ہیں جن کے حق میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کفار کے پنجے سے نجات کے لیے دعا کیا کرتے تھے۔ [ بخاری، التفسیر، باب قولہ :﴿فاولٰئک عسی اللہ…﴾ : ۴۵۹۸ ] 2۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما کی والدہ ام الفضل بنت الحارث رضی اللہ عنھا ہیں اور ان کا نام لبابہ ہے، جو ام المومنین میمونہ بنت الحارث رضی اللہ عنھا کی بہن تھیں۔ ’’بنات حارث ‘‘ نو بہنیں تھیں، ان میں سے ایک اسماء بنت عمیس خثعمیہ رضی اللہ عنھا تھیں جو ماں کی طرف سے میمونہ رضی اللہ عنھا کی بہن تھیں اور جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی بیوی۔ جعفر رضی اللہ عنہ کے بعد ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ان سے نکاح کر لیا اور ابو بکر رضی اللہ عنہ کے بعد علی رضی اللہ عنہ کے نکاح میں آ گئیں۔ (قرطبی)