لَّا يَسْتَوِي الْقَاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ وَالْمُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنفُسِهِمْ ۚ فَضَّلَ اللَّهُ الْمُجَاهِدِينَ بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنفُسِهِمْ عَلَى الْقَاعِدِينَ دَرَجَةً ۚ وَكُلًّا وَعَدَ اللَّهُ الْحُسْنَىٰ ۚ وَفَضَّلَ اللَّهُ الْمُجَاهِدِينَ عَلَى الْقَاعِدِينَ أَجْرًا عَظِيمًا
جو لوگ بغیر کسی معذوری [١٣٢] کے بیٹھ رہیں (جہاد میں شامل نہ ہوں) اور جو لوگ اپنی جانوں اور اپنے اموال سے اللہ کی راہ میں جہاد کرتے ہیں ان دونوں کی حیثیت برابر نہیں ہوسکتی۔ اللہ نے آپ نے جان و مال سے جہاد کرنے والوں کا بیٹھ رہنے والوں کے مقابلہ میں بہت زیادہ درجہ رکھا ہے۔ اگرچہ ہر ایک [١٣٣] سے اللہ نے بھلائی کا وعدہ کر رکھا ہے تاہم بیٹھ رہنے والوں کے مقابلہ میں جہاد کرنے والوں کا اللہ کے ہاں بہت زیادہ جر ہے
1۔ لَا يَسْتَوِي الْقٰعِدُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ:جہاد کے فرضِ عین ہونے کی صورت میں تو کسی شخص کو بلا عذر گھر میں بیٹھ رہنے کی اجازت ہی نہیں بلکہ ایسی صورت میں جہاد میں شامل نہ ہونا صریح نفاق ہے، مگر جب نفیر عام (سب کے نکلنے) کا حکم نہ ہو اور امام کی طرف سے یہ اعلان کیا جائے کہ جو شخص جہاد کے لیے نکل سکتا ہو نکلے اور جو اپنے کام کی وجہ سے نہیں نکل سکتا اسے اپنے گھر میں بیٹھے رہنے کی اجازت ہے، تو ایسی صورت میں جو شخص جہاد کے لیے نکلے اس آیت میں اس کی فضیلت کا ذکر ہے یعنی جہاد کے لیے نکلنا لازم نہ ہونے کے باوجود جو لوگ جہاد کے لیے نکلتے ہیں اور جو گھروں میں بیٹھے رہتے ہیں دونوں برابر نہیں ہو سکتے۔ زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بلایا، میں کتابت کے لیے حاضر ہوا تو عبد اللہ بن ام مکتوم رضی اللہ عنہ، جو نابینا تھے، آ گئے اور کہنے لگے، اللہ کی قسم ! اے اللہ کے رسول ! اگر میں آپ کے ہمراہ جہاد کر سکتا ہوتا تو ضرور کرتا، تو اسی وقت اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل فرمائی اور ”غَيْرُ اُولِي الضَّرَرِ“ ( جو کسی تکلیف والے نہیں) کا کلمہ نازل ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے لکھوا دیا۔ [ بخاری، التفسیر، باب :﴿ لا یستوی القاعدون من المؤمنین﴾ : ۴۵۹۲ ] معلوم ہوا کہ جس شخص کی نیت جہاد کی ہو مگر اسے کوئی تکلیف ہو اور وہ کسی عذر کی بنا پر جہاد میں شریک نہ ہو سکے وہ مجاہدین کے برابر ہو سکتا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’مدینہ میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں کہ تم نے جس قدر سفر کیا اور جتنی وادیاں طے کیں وہ تمہارے ساتھ تھے۔‘‘ صحابہ نے عرض کیا : ’’اے اللہ کے رسول! وہ تو مدینہ میں ہیں؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ (ہاں) اگرچہ وہ مدینہ میں ہیں، لیکن انھیں کسی عذر نے جہاد میں شرکت سے روکا ہے۔‘‘ [بخاری، المغازی، بابٌ : ۴۴۲۳، عن أنس رضی اللّٰہ عنہ ] کئی دوسری روایات سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے، عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’مسلمانوں میں سے کسی شخص کو بھی اس کے جسم میں کوئی آزمائش آتی ہے تو اللہ تعالیٰ ان محافظ فرشتوں کو حکم دیتا ہے جو اس کی حفاظت کرتے ہیں کہ میرے بندے کے لیے اسی طرح عمل لکھ دو جس طرح وہ اس وقت عمل کرتا تھا جب وہ تندرست تھا جب تک وہ میری گرفت میں رہے۔ [ أحمد، ۲؍۱۹۴، ح : ۶۸۲۵، صحیح علی شرط مسلم ] 2۔ وَ كُلًّا وَّعَدَ اللّٰهُ الْحُسْنٰى: یعنی جان و مال سے جہاد کرنے والوں کو جو فضیلت حاصل ہو گی، جہاد میں حصہ نہ لینے والے اگرچہ اس سے محروم رہیں گے، تاہم اللہ تعالیٰ نے دونوں کے ساتھ ہی بھلائی کا وعدہ کیا ہے۔ اس سے علماء نے استدلال کیا ہے کہ عام حالات میں جہاد کے لیے نکلنا فرض عین نہیں، فرض کفایہ ہے، یعنی اگر بقدر ضرورت آدمی جہاد میں حصہ لے لیں تو اس علاقے کے دوسرے لوگوں کی طرف سے بھی یہ فرض ادا شدہ سمجھا جائے گا، لیکن اگر بقدر ضرورت نہ نکلیں تو تمام لوگ گناہ گار ہوں گے۔