فَالْمُدَبِّرَاتِ أَمْرًا
پھر ان کی جو کسی حکم کی تدبیر [٥] کرنے والے ہیں
فَالْمُدَبِّرٰتِ اَمْرًا : پھر دین و دنیا کے جس کام کا انھیں حکم دیا ہوتا ہے اس کی تدبیر کرتے ہیں۔ قرآن مجید میں جن چیزوں کی قسم کھائی گئی ہے یا تو ان کی ندرت کی طرف توجہ دلانا مقصود ہوتا ہے یا انھیں بعد میں آنے والے جواب قسم کی شہادت کے طور پر ذکر کیا جاتا ہے۔ یہاں جواب قسم صاف لفظوں میں مذکور نہیں مگر قیامت کے احوال ذکر کرنے سے خود بخود سمجھ میں آرہا ہے کہ یہ قسمیں اس بات کا یقین دلانے کے لیے کھائی گئی ہیں کہ قیامت قائم ہو کر رہے گی۔ اہلِ عرب فرشتوں کا اللہ کی طرف سے قبضِ ارواح اور دوسرے معاملات کی تدبیر پر مامور ہونا مانتے تھے۔ فرشتوں کے یہ اوصاف ذکر کرکے ان کی قسم اس بنا پر کھائی گئی ہے کہ فرشتے جس اللہ کے حکم سے روح قبض کرتے ہیں، نہایت تیزی سے کائنات میں نقل و حرکت کرتے ہیں اور کائنات کے معاملات کی تدبیر کرتے ہیں، اسی اللہ کے حکم سے صور میں پھونک کر اس کائنات کو فنا بھی کر سکتے ہیں اور دوبارہ پھونک کر از سر نو زندہ بھی کر سکتے ہیں۔