إِنَّا أَنذَرْنَاكُمْ عَذَابًا قَرِيبًا يَوْمَ يَنظُرُ الْمَرْءُ مَا قَدَّمَتْ يَدَاهُ وَيَقُولُ الْكَافِرُ يَا لَيْتَنِي كُنتُ تُرَابًا
ہم نے تمہیں اس عذاب سے ڈرایا ہے جو قریب آپہنچا ہے۔ اس دن آدمی وہ سب کچھ دیکھ لے گا جو اس کے ہاتھوں نے آگے بھیجا ہے اور کافر کہے گا : کاش میں مٹی [٢٧] ہوتا۔
1۔ اِنَّا اَنْذَرْنٰكُمْ عَذَابًا قَرِيْبًا ....: آخرت کے عذاب کو قریب فرمایا، کیونکہ عمر خواہ کتنی بھی ہو ختم ہونے والی ہے اور ہر آنے والا وقت قریب ہی ہوتا ہے ۔ قیامت کو جب اٹھیں گے تو انھیں دنیا میں قیام کا وقت ایسے معلوم ہوگا جیسے دن کا ایک پہر گزرا ہو۔ (دیکھیے نازعات : ۴۶) بلکہ قیامت کے دن مجرم قسم کھا کر کہیں گے کہ ہم دنیا میں ایک گھڑی سے زیادہ نہیں رہے۔ دیکھیے سورۂ روم (۵۵)۔ 2۔ يٰلَيْتَنِيْ كُنْتُ تُرٰبًا : اے کاش کہ میں مٹی ہوتا، یعنی پیدا ہی نہ ہوا ہوتا، نہ حساب ہوتا نہ کتاب۔ دوسرا معنی یہ ہے کہ کاش ! میں مر کر مٹی ہو جاتا تو نہ حساب ہوتا نہ عذاب۔ بعض مفسرین نے ایک عجیب معنی کیا ہے کہ’’ الْكٰفِرُ ‘‘ سے مراد یہاں ابلیس ہے ۔ جب آدم علیہ السلام اور ان کی اولاد کو ان کے اعمال کا ثواب ملے گا تو ابلیس کہے گا کاش! میں مٹی ہوتا، آگ سے بنا ہوا نہ ہوتا، کیونکہ اس نے آگ سے بنا ہوا ہونے کی وجہ سے آدم کو سجدہ کرنے کا حکم ٹھکرا دیا تھا۔ (زاد المسیرلابن جوزی) پہلے معنوں کے ساتھ یہ بھی شامل کیا جاسکتا ہے۔