سورة المرسلات - آیت 20

أَلَمْ نَخْلُقكُّم مِّن مَّاءٍ مَّهِينٍ

ترجمہ تیسیرالقرآن - مولانا عبد الرحمن کیلانی

کیا ہم نے تمہیں حقیر پانی سے پیدا نہیں کیا ؟

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

اَلَمْ نَخْلُقْكُّمْ مِّنْ مَّآءٍ مَّهِيْنٍ....: اللہ تعالیٰ نے انسان کو ایک حقیر پانی یعنی منی کے قطرے سے پیدا فرمایا، پھر اسے ایک محفوظ ٹھکانے یعنی ماں کے رحم میں رکھا، جو تین اطراف سے ہڈیوں سے گھرا ہوا ہے۔ حمل قرار پاتے ہی بچے کو اتنی مضبوطی سے رحم میں جمایا جاتا ہے اور اس کی حفاظت کا اتنا انتظام ہوتا ہے کہ شدید حادثے کے بغیر اس کا اسقاط نہیں ہو سکتا۔ اِلٰى قَدَرٍ مَّعْلُوْمٍ: ’’اس اندازے تک جو معلوم ہے‘‘ یعنی نو ماہ یا اس سے کم یا زیادہ، جس کا علم اللہ تعالیٰ ہی کو ہے کہ وہ اتنے مہینوں، دنوں، گھنٹوں یا منٹوں میں پیدا ہو گا، کسی دوسرے کو اس کا علم نہیں۔ فَقَدَرْنَا فَنِعْمَ الْقٰدِرُوْنَ: یعنی ہم نے ایک ایسی مدت مقرر کی جس میں بچے کی ساخت مکمل ہو جاتی ہے، نہ کوئی چیز ضرورت سے زائد بنتی ہے اور نہ کوئی ضروری چیز رہ جاتی ہے۔ جب تک اس کے لیے رحم کے اندر رہنا ضروری ہوتا ہے وہ اس میں رہتا ہے اور جب باہر آنا ضروری ہوتا ہے تو وہ باہر آجاتا ہے۔ یہ مدت ہم نے مقرر کی ہے اور ہم کتنا ٹھیک اندازہ کرنے والے ہیں۔ ’’ فَقَدَرْنَا ‘‘ کا دوسرا ترجمہ ’’ہم قادر ہوئے ‘‘ بھی ہو سکتا ہے، یعنی ہم نے پانی کی ایک بوند کو بتدریج ترقی دیتے دیتے کامل و عاقل انسان بنا دیا، اس سے تم سمجھ سکتے ہو کہ ہم کیا خوب قدرت رکھنے والے ہیں۔ (اشرف الحواشی) وَيْلٌ يَّوْمَىِٕذٍ لِّلْمُكَذِّبِيْنَ: ایک حقیر قطرے سے اپنی تخلیق کو دیکھنے کے بعد جو لوگ آخرت کے دن کو ناممکن قرار دے کر جھٹلاتے ہیں ان کے لیے اس دن بڑی ہلاکت اور بربادی ہے۔