وَيَطُوفُ عَلَيْهِمْ وِلْدَانٌ مُّخَلَّدُونَ إِذَا رَأَيْتَهُمْ حَسِبْتَهُمْ لُؤْلُؤًا مَّنثُورًا
اور ان کی خدمت کے لیے ایسے لڑکے دوڑتے پھر رہے ہوں گے جو ہمیشہ لڑکے ہی [٢١] رہیں گے۔ جب تم انہیں دیکھو تو سمجھو کہ وہ بکھرے [٢٢] ہوئے موتی ہیں
وَ يَطُوْفُ عَلَيْهِمْ وِلْدَانٌ مُّخَلَّدُوْنَ ....: یعنی جنتیوں کی مجلس میں خدمت کے لیے ایسے لڑکے گردش کرتے رہیں گے جن میں دو وصف نمایاں ہو ں گے، ایک تویہ کہ وہ ہمیشہ بچے ہی رہیں گے، کیونکہ خدمت کے لیے بڑی عمر کے آدمی کے بجائے بچے زیادہ مستعد اور موزوں ہوتے ہیں اور انھیں خدمت کے لیے کوئی کام کہنے میں حجاب نہیں ہوتا۔ دوسرا یہ کہ وہ اتنے خوبصورت ہوں گے کہ جب تم انھیں آتے جاتے دیکھو گے تو گمان کرو گے کہ وہ بکھرے ہوئے موتی ہیں۔ ان کی خدمت کے لیے ہر طرف پھیلے ہوئے ہونے کو موتیوں کے بکھرنے سے تشبیہ دی ہے۔ یہ لڑکے کوئی الگ مخلوق ہو گی، جو اللہ تعالیٰ اہلِ جنت کی خدمت کے لیے پیدا فرمائے گا یا جنتیوں کے اپنے لڑکے ہوں گے؟ اگرچہ پہلی بات بھی ممکن ہے، مگر سورۂ طور سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ جنتیوں کے اپنے بچے ہی ہوں گے، فرمایا : ﴿ وَ يَطُوْفُ عَلَيْهِمْ غِلْمَانٌ لَّهُمْ كَاَنَّهُمْ لُؤْلُؤٌ مَّكْنُوْنٌ﴾ [ الطور : ۲۴ ] ’’اور ان پر پھریں گے ان کے لڑکے، گویا وہ چھپائے ہوئے موتی ہیں۔‘‘ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ لڑکے ان کے اپنے ہی بچے ہوں گے جو دنیا میں فوت ہو گئے یا جنت میں اگر کسی کو اولاد کی خواہش ہوئی، تو وہ بچے انھیں عطا کیے جائیں گے۔ یہ بچے خدمت کے لیے ان کے اردگرد پھریں گے اور ان کے لیے مزید راحت و مسرت کا باعث ہوں گے۔ (واللہ اعلم) ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( اَلْمُؤْمِنُ إِذَا اشْتَهَی الْوَلَدَ فِي الْجَنَّةِ، كَانَ حَمْلُهُ وَوَضْعُهُ وَسِنُّهُ فِيْ سَاعَةٍ وَّاحِدَةٍ، كَمَا يَشْتَهِيْ )) [ ابن ماجہ، الزھد، باب صفۃ الجنۃ : ۴۳۳۸، وقال الألباني صحیح ] ’’مومن جب جنت میں اولاد چاہے گا تو اس کا حمل اور وضع حمل اور اس کا بڑا ہونا ایک گھڑی میں ہو جائے گا، اس کی خواہش کے مطابق۔‘‘