يُوفُونَ بِالنَّذْرِ وَيَخَافُونَ يَوْمًا كَانَ شَرُّهُ مُسْتَطِيرًا
یہ وہ لوگ ہوں گے جو اپنی نذریں پوری کرتے [٨] ہیں اور اس دن سے ڈرتے ہیں جس کی آفت ہر سو پھیلی [٩] ہوئی ہوگی
يُوْفُوْنَ بِالنَّذْرِ ....: ’’اَلنَّذْرُ‘‘ اپنے آپ پر وہ چیز واجب کر لینا جو واجب نہیں ہے۔ ’’ مُسْتَطِيْرًا ‘‘ ’’طَارَ يَطِيْرُ‘‘ اڑنا اور ’’اِسْتَطَارَ يَسْتَطِيْرُ‘‘ باب استفعال میں الفاظ زیادہ ہونے کی وجہ سے معنی میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے، یعنی بہت زیادہ اڑنے والا، مراد ہے بہت زیادہ پھیلنے والا، جیسے آگ یا صبح کی روشنی خوب پھیل جائے تو کہا جاتا ہے : ’’اِسْتَطَارَ الْحَرِيْقُ‘‘ یا ’’اِسْتَطَارَ الْفَجْرُ‘‘ کہ آگ بہت زیادہ پھیل گئی ہے، یاصبح کی روشنی خوب پھیل گئی ہے۔ اس آیت میں اور اس کے بعد کی تین آیات میں اللہ تعالیٰ کے ان خاص بندوں کی چند صفات بیان کی گئی ہیں، ایک صفت یہ ہے کہ وہ اپنی نذر پوری کرتے ہیں، یعنی جو کام ان پر واجب نہیں جب اللہ کی رضا کے لیے اپنے آپ پر واجب کر لیتے ہیں تو انھیں پورا کرتے ہیں، پھر جو کام اللہ تعالیٰ کی طرف سے پہلے ہی واجب ہیں ان پرکتنے اہتمام سے عمل کرتے ہوں گے۔ نذر کے مسائل کے لیے دیکھیے سورۂ بقرہ (۲۷۰) اور سورۂ حج (۲۹) کی تفسیر۔ ان لوگوں کے نذر پوری کرنے کا باعث یہ ہے کہ وہ قیامت کے دن سے ڈرتے ہیں جس کی مصیبت ہر طرف پھیلی ہوئی ہو گی۔ اس سے ان صوفیوں کا ردّ ہوتا ہے جو کہتے ہیں کہ جنت کے طمع یا جہنم کے خوف سے عبادت نہیں کرنی چاہیے۔