هَلْ أَتَىٰ عَلَى الْإِنسَانِ حِينٌ مِّنَ الدَّهْرِ لَمْ يَكُن شَيْئًا مَّذْكُورًا
کیا انسان پر لامتناہی زمانہ [١] سے ایک وقت ایسا بھی آیا ہے جب کوئی قابل ذکر چیز نہ تھا ؟
1۔ هَلْ اَتٰى عَلَى الْاِنْسَانِ ....: ’’ هَلْ ‘‘ (کیا) پوچھنے کے لیے آتا ہے۔ یہ پوچھنا کبھی تو کوئی خبر معلوم کرنے کے لیے ہوتا ہے، جیسے ’’هَلْ فِي الدَّارِ زَيْدٌ‘‘ ’’کیا گھر میں زید ہے؟‘‘ اللہ تعالیٰ کو اس کی ضرورت ہی نہیں۔ کبھی یہ سوال کسی بات کی نفی کے لیے ہوتا ہے، جیسے : ’’وَ هَلْ يَسْتَطِيْعُ ذٰلِكَ أَحَدٌ‘‘ ’’بھلا یہ کام کوئی کرسکتا ہے؟‘‘ یعنی کوئی نہیں کر سکتا۔ عربی میں اسے نفی کے علاوہ جحد بھی کہتے ہیں۔ بعض اوقات یہ پوچھنا بات منوانے کے لیے ہوتا ہے، اسے عربی میں تقریر کہتے ہیں، جیسے آپ نے کسی کو کچھ دیا ہو یا اس کی عزت کی ہو تو اسے کہیں ’’هَلْ أَعْطَيْتُكَ‘‘ ’’کیا میں نے تمھیں دیا؟‘‘ اور ’’هَلْ أَكْرَمْتُكَ‘‘ ’’کیا میں نے تمھاری عزت کی ؟‘‘ اس وقت یہ ’’هَلْ‘‘ بمعنی ’’ قَدْ‘‘ ہوتا ہے، یعنی یقیناً میں نے تمھیں دیا اور یقیناً میں نے تمھاری عزت کی۔ اس آیت میں ’’ هَلْ ‘‘ اسی آخری معنی کے لیے آیا ہے۔ بہت سے مفسرین نے اس کا ترجمہ ’’یقیناً ‘‘ یا ’’تحقیق‘‘ کیا ہے، لیکن ’’ هَلْ ‘‘ کا معنی اپنے اصل پر ”کیا“ ہو تب بھی مراد یہی ہے کہ یقیناً اس پر ایسا وقت گزرا ہے۔ 2۔ بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ انھیں مرنے کے بعد دوبارہ زندہ نہیں کیا جائے گا، ان کے خیال میں یہ ممکن ہی نہیں کہ انسان کے خاک ہو جانے کے بعد اسے دوبارہ پیدا کیا جا سکے۔ یہاں ایسے لوگوں کو قائل کرنے کے لیے سوال ہے کہ کیا انسان پر زمانے میں سے کوئی ایسا وقت گزرا ہے جب وہ کوئی ایسی چیز ہی نہ تھا جس کا ذکر ہوتا ہو؟ صاف ظاہر ہے کہ ان کا جواب یہ ہو گا کہ یقیناً انسان پر ایسا وقت گزرا ہے۔ تو جب اللہ تعالیٰ نے اسے اس وقت بنا لیا جب یہ کچھ بھی نہ تھا بلکہ کہیں اس کا ذکر بھی نہ تھا تو پیدا کرنے کے بعد دوبارہ وہ کیوں نہیں بنا سکتا؟ دوسری جگہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ وَ يَقُوْلُ الْاِنْسَانُ ءَاِذَا مَا مِتُّ لَسَوْفَ اُخْرَجُ حَيًّا (66) اَوَ لَا يَذْكُرُ الْاِنْسَانُ اَنَّا خَلَقْنٰهُ مِنْ قَبْلُ وَ لَمْ يَكُ شَيْـًٔا ﴾ [ مریم : 67،66 ] ’’اور انسان کہتا ہے کہ جب میں مرجاؤں گا تو کیا مجھے زندہ کرکے (قبر سے) نکالاجائے گا؟ کیا اسے یاد نہیں کہ ہم نے اس سے پہلے اسے پیدا کیا جب وہ کوئی چیز ہی نہ تھا۔‘‘ 3۔ ’’ الْاِنْسَانِ ‘‘ سے مراد یہاں صرف آدم علیہ السلام نہیں بلکہ نسل انسانی ہے، کیونکہ آئندہ آیت میں انسان کے نطفہ سے پیدا ہونے کا ذکر ہے۔