أَيَحْسَبُ الْإِنسَانُ أَن يُتْرَكَ سُدًى
کیا انسان نے یہ سمجھ رکھا [٢٠] ہے کہ اسے شتر بے مہار کی طرح چھوڑ دیا جائے گا
1۔ اَيَحْسَبُ الْاِنْسَانُ اَنْ يُّتْرَكَ سُدًى ....: ’’ سُدًى ‘‘ وہ اونٹ جو کھلے چھوڑ دیے جائیں، انھیں ’’إِبِلٌ سُدًي‘‘ کہتے ہیں، یعنی کھلا چھوڑا ہوا، جس سے کوئی باز پرس نہ ہو۔ ’’ يُمْنٰى ‘‘ ’’أَمْنٰي يُمْنِيْ‘‘ (افعال) سے مضارع مجہول ہے، گرایا جاتا ہے، ٹپکایا جاتاہے۔ 2۔ حشر و نشر کے منکر اس بات کو ناممکن قرار دیتے تھے کہ بوسیدہ ہڈیاں دوبارہ زندہ ہوں گی اور ان کا محاسبہ ہو گا۔ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے انسان کو دوبارہ زندہ کرکے اس سے حساب لینے کی دلیل بیان فرمائی ہے کہ کیا انسان یہ سمجھتا ہے کہ اسے پوچھے بغیر ہی رہنے دیا جائے گا؟ نہیں،یہ غلط سوچ ہے، جس قادر مطلق نے پانی جیسی پتلی چیز کی ایک بوند کو رحم مادر میں جمے ہوئے خون میں بدلنے کے بعد گوشت، ہڈیاں اور تمام اعضا مکمل کرکے روح پھونک کر مرد یا عورت کی صورت والا زندہ انسان بنا دیا، تو اس کے لیے اسی کی مٹی کو دوبارہ اصل شکل میں لے آنا کیا مشکل ہے؟ اس کے علاوہ اگر انسان اپنی اصل پر غور کرے کہ وہ ایک حقیر قطرہ تھا جو باپ کے ان اعضا سے ماں کے ان اعضا میں گرایا گیا جن کا نام بھی شرم و حیا کی وجہ سے نہیں لیا جاتا، پھر وہاں مختلف مراحل سے گزار کر اس کی مکمل صورت گری کے بعد اسے اسی راستے سے واپس لایا گیا جس کا ذکر ہی موجب حیا ہے۔ اب کیا انسان کو یہ زیب دیتا ہے کہ اپنے پیدا کرنے والے کے سامنے سرکشی کرے اور اکڑ کر چلے اور یہ سمجھے کہ اسے کوئی پوچھنے والا ہی نہیں؟