كَلَّا إِذَا بَلَغَتِ التَّرَاقِيَ
ہرگز نہیں۔ جب (جان) ہنسلی تک پہنچ [١٦] جاتی ہے
1۔ كَلَّا اِذَا بَلَغَتِ التَّرَاقِيَ ....: ’’بَلَغَتْ‘‘ کا فاعل ’’نَفْسٌ‘‘ہےجو محذوف ہے، یعنی جان ہنسلیوں تک پہنچ جائے گی۔ ’’التَّرَاقِيَ ‘‘ ’’تَرْقُوَةٌ‘‘ کی جمع ہے، سینے کی اوپر والی ہڈی جو گلے کے ساتھ ہے، ہنسلی۔ ’’ رَاقٍ ‘‘ ’’رَقٰي يَرْقِيْ‘‘ (ض) سے اسم فاعل ہے، دم کرنے والا۔ ’’ظَنَّ‘‘ کا معنی گمان کرنا ہے، اگر اس کے بعد ’’أَنَّ‘‘ ہو تو یقین کے معنی میں بھی آتا ہے۔ ’’ الْمَسَاقُ ‘‘ ’’ سَاقَ يَسُوْقُ سَوْقًا ‘‘ (ن) سے مصدر میمی ہے، ہانکنا، چلانا۔ 2۔ ’’ كَلَّا ‘‘ نہیں نہیں، یعنی تمھارا جلدی حاصل ہونے والی دنیا سے محبت کرنا اور آخرت کو چھوڑ دینا ہر گز درست نہیں، تمھارے سامنے کتنے لوگ دنیا سے رخصت ہوئے، ان کا آخری وقت یاد کرو جب جان پیروں سے اور تمام جسم سے نکل کر ہنسلیوں تک پہنچ جاتی ہے اور حکیموں ڈاکٹروں سے مایوس ہو کر کسی دم کرنے والے کی تلاش شروع ہوتی ہے کہ شاید دم ہی سے اچھا ہو جائے۔ ادھر بیمار کو زندگی سے نا امیدی ہو گئی اور مرنے کا گمان قوی ہو گیا۔ پکے دنیا داروں کو جان بہت پیاری ہوتی ہے، وہ مرنا نہیں چاہتے، آخری وقت تک ان کو زندگی کی توقع رہتی ہے، اس لیے یقین کی جگہ گمان کا لفظ فرمایا، لیکن آخر یہ گمان یوں یقین کے درجے کو پہنچ گیا کہ پاؤں کا دم نکل گیا۔پنڈلیاں سوکھ کر ایک دوسرے سے لپٹ گئیں، یہاں تک کہ ٹانگوں کو کوئی دوسرا آدمی سیدھا نہ کرے تو سمٹی ہوئی ہی رہ جائیں، آخر سارے جسم میں سے کھنچ کر جو جان حلق میں آگئی تھی اس نے بھی جسم کو چھوڑ دیا اور پھر اس کی روانگی اس رب تعالیٰ کی طرف ہو گئی جس نے پہلے جسم میں وہ جان ڈالی تھی۔(خلاصہ احسن التفاسیر)