سورة النسآء - آیت 69

وَمَن يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسُولَ فَأُولَٰئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِم مِّنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ ۚ وَحَسُنَ أُولَٰئِكَ رَفِيقًا

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

اور جو شخص اللہ اور رسول کی اطاعت کرتا ہے تو ایسے لوگ ان لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے انعام کیا ہے یعنی انبیائ، صدیقین، شہیدوں اور صالحین [٩٩] کے ساتھ اور رفیق ہونے کے لحاظ سے یہ لوگ کتنے اچھے ہیں

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

1۔ ”الصِّدِّيْقِيْنَ“ یہ صدق سے مبالغہ ہے، یعنی جو بہت سچا ہو۔ بعض نے کہا، جو کبھی جھوٹ نہ بولے۔ بعض نے کہا، صدیق وہ ہے کہ صدق کی عادت کی وجہ سے اس سے جھوٹ نا ممکن ہو اور بعض نے کہا کہ جو اپنے اعتقاد اور قول میں سچا ہو اور اپنے فعل کے ساتھ اپنے صدق کو ثابت کرے۔ ( مفردات) استاد محمد عبدہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ صدیق صدق سے مبالغے کا صیغہ ہے، یعنی جو جملہ امور دین کی تصدیق کرنے والا ہو اور کبھی کسی معاملے میں خلجان اور شک اس کے دل میں پیدا نہ ہو، یا وہ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق میں سبقت کرنے کی وجہ سے دوسروں کے لیے اسوہ بنے، اس اعتبار سے اس امت کے صدیق ابو بکر رضی اللہ عنہ ہی ہو سکتے ہیں، کیونکہ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ دوسرے افاضل صحابہ کے لیے نمونہ بنے ہیں۔ علی رضی اللہ عنہ بھی اول مسلمانوں میں شمار ہوتے ہیں، مگر چھوٹے بچے ہونے کی وجہ سے دوسروں کے لیے نمونہ نہیں بن سکے۔ چونکہ نبی کے بعد صدیق کا درجہ ہے، اس لیے علمائے اہل سنت کا اجماع ہے کہ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے افضل ہیں۔ ”الشُّهَدَآءِ“ یہ شہید کی جمع ہے، اس سے مراد وہ لوگ ہیں جنھوں نے اللہ تعالیٰ کے راستے میں جان دی اور امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی شہداء ہونے کا شرف حاصل ہے۔ ”الصّٰلِحِيْنَ“ اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو ہر طرح عقیدہ و عمل کے اعتبار سے صالح اور درست رہے اور ہر قسم کے فساد سے محفوظ رہے۔ (رازی) مَعَ الَّذِيْنَ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَيْهِمْ: یہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کے انعام کا ذکر ہے کہ انھیں انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین کی معیت، یعنی ان کا ساتھ نصیب ہو گا۔ احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہنے کا شوق بہت زیادہ تھا، دنیا میں بھی وہ اس کے بہت مشتاق تھے اور انھیں جنت میں آپ کی معیت کا شوق تو حد سے زیادہ تھا۔ ربیعہ بن کعب اسلمی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس رات بسر کیا کرتا تھا اور آپ کے لیے پانی اور دیگر ضروریات کا اہتمام کر دیا کرتا تھا، ایک دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ کچھ مانگ لو!‘‘ میں نے عرض کی : ’’میں آپ سے جنت میں آپ کی مرافقت (ساتھ) کا سوال کرتا ہوں۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ کوئی اور سوال؟‘‘ میں نے عرض کی : ’’وہ بھی یہی ہے۔‘‘ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ پھر سجدوں کی کثرت کے ساتھ اپنے بارے میں میری مدد کرو۔ ‘‘ [مسلم، الصلاۃ، باب فضل السجود والحث علیہ : ۴۸۹ ] یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خالص محبت اور اطاعت کی برکت ہے کہ اگر عمل میں کچھ کمی ہوئی تب بھی اطاعت و اخلاص کی وجہ سے اتنے اونچے لوگوں کا ساتھ مل جائے گا۔ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا : ’’آپ اس شخص کے متعلق کیا فرماتے ہیں جو کچھ لوگوں سے محبت رکھتا ہے، مگر ابھی تک ( اعمال میں) ان سے نہیں مل سکا۔‘‘ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’آدمی اس کے ساتھ ہو گا جس سے اسے محبت ہو گی۔‘‘ [ بخاری، الأدب، باب علامۃ الحب فی اللّٰہ:۶۱۶۹ ] حقیقت یہ ہے کہ اطاعت اور محبت لازم و ملزوم ہیں، وہ محبت جس میں اطاعت نہ ہو جھوٹی ہے اور وہ اطاعت جس کی بنیاد محبت نہ ہو، دکھاوا ہے۔ ہاں، محبت و اخلاص کے ساتھ عمل و اطاعت میں کچھ کمی ہو گی تو اللہ تعالیٰ اسے اپنے فضل سے پورا کر دے گا، انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین سے زیادہ اچھا ساتھی کوئی نہیں اور اللہ کے فضل سے بڑی نعمت کوئی نہیں اور اللہ تعالیٰ لوگوں کے دلوں کے حالات خوب جانتا ہے کہ کسے کس کے ساتھ رکھنا ہے۔ انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ’’مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت ہے، ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما سے محبت ہے، لہٰذا مجھے امید ہے کہ ان کے ساتھ محبت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ مجھے ان کے ساتھ ہی اٹھائیں گے، گو میں ان جیسے عمل نہیں کر سکا۔‘‘ [ بخاری، فضائل أصحاب النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم ، باب مناقب عمر بن الخطاب رضی اللّٰہ عنہ: ۳۶۸۸ ]