لَا تُحَرِّكْ بِهِ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهِ
(اے نبی!) اس وحی کو جلدی جلدی یاد کرلینے کے لیے اپنی زبان کو حرکت نہ دیجیے
1۔ لَا تُحَرِّكْ بِهٖ لِسَانَكَ ....: ابن عباس رضی اللہ عنھما نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قرآن مجید اترتے وقت بہت تکلیف محسوس کرتے تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ آپ ساتھ ساتھ ہونٹ ہلاتے جاتے تھے، تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری : ﴿ لَا تُحَرِّكْ بِهٖ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهٖ (16) اِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهٗ وَ قُرْاٰنَهٗ ﴾ ’’تو اس کے ساتھ اپنی زبان کو حرکت نہ دے کہ اسے جلدی حاصل کرے، بلاشبہ اس کو جمع کرنا اور (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا) اس کو پڑھنا ہمارے ذمے ہے۔‘‘ ابن عباس رضی اللہ عنھما نے فرمایا، اس کا مطلب یہ ہے کہ اسے آپ کے سینے میں جمع کرنا اور آپ کا اسے پڑھنا ہمارے ذمے ہے۔ ’’ فَاِذَا قَرَاْنٰهُ فَاتَّبِعْ قُرْاٰنَهٗ ‘‘ تو جب ہم اسے پڑھیں تو کان لگا کر سنو اور خاموش رہو۔ ’’ ثُمَّ اِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَهٗ ‘‘ پھر یہ ہمارے ذمے ہے کہ آپ اسے پڑھیں گے۔ اس کے بعد جب جبریل علیہ السلام آپ کے پاس آتے تو آپ کان لگاکر سنتے رہتے، جب وہ چلے جاتے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اسی طرح پڑھ لیتے جیسے جبریل علیہ السلام نے پڑھا تھا۔ [ بخاری، بدء الوحي، باب کیف کان بدء الوحي : ۵ ] ’’ جَمْعَهٗ وَ قُرْاٰنَهٗ ‘‘ سے اوّلین مراد یہی ہے جو ابن عباس رضی اللہ عنھما نے بیان فرمائی، مگر لفظ عام ہونے کی وجہ سے قرآن جمع کرنے اور اسے پڑھنے کی تمام صورتیں اس میں شامل ہیں اور اس کے جمع و نشر کا ذمہ اللہ تعالیٰ نے خود لیا ہے۔ چنانچہ خلفاء کا قرآن مجید کو جمع کرنا، لکھوانا اور حفاظ کا حفظ کرنا، ریڈیو، ٹیلی وژن، پریس اور کمپیوٹر کے ذریعے سے قرآن کا جمع اور نشر ہونا بھی اس میں شامل ہے۔ 2۔ ’’ ثُمَّ اِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَهٗ ‘‘ سے معلوم ہوا کہ قرآن مجید کی وضاحت کا ذمہ بھی اللہ تعالیٰ نے خود اٹھایا ہے اور یہ وضاحت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے فرمائی ہے، جو حدیث و سنت کی صورت میں ہمارے پاس محفوظ ہے۔ مثلاً قرآن میں اللہ تعالیٰ نے نماز قائم کرنے کا حکم دیا تو اس کی تشریح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل اور فرمان کے ساتھ کر دی کہ نمازوں کے اوقات کیا ہیں اور نمازیں کتنی ہیں۔ ان کی رکعات، قیام، رکوع، سجود وغیرہ کی ترتیب اور ان میں پڑھے جانے والے اذکار، غرض یہ سب کچھ قرآن کا بیان ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے کیا گیا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿وَ اَنْزَلْنَا اِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَيْهِمْ وَ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُوْنَ ﴾ [ النحل : ۴۴ ] ’’اور (اے رسول!) ہم نے تیری طرف یہ ذکر نازل کیاہے، تاکہ تو لوگوں کے لیے اس (ذکر) کی وضاحت اور تشریح کر دے جو ان کی طرف نازل کیا گیا اور تاکہ وہ غور و فکر کریں۔‘‘ معلوم ہوا کہ حدیث قرآن ہی کا بیان ہے، اس لیے اس پر عمل کرنا بھی اسی طرح واجب ہے جس طرح قرآن پر عمل کرنا واجب ہے۔ 3۔ ’’ فَاِذَا قَرَاْنٰهُ ‘‘ (جب ہم اسے پڑھیں) سے مراد یہ ہے کہ جب جبریل علیہ السلام پڑھ رہے ہوں، کیونکہ ان کا پڑھنا اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہے، اس لیے اس کی نسبت اللہ تعالیٰ نے خود اپنی طرف فرمائی۔ 4۔ سورت کے شروع میں منکرین حشر اور منکرین قیامت کا ذکر ہے، سورت کے آخر میں بھی یہی ذکر ہے، درمیان میں یہ آیات ہیں جن کا بظاہر ماقبل اور ما بعد سے کوئی ربط نہیں۔ اس لیے بعض شیعہ مفسرین نے یہاں تک لکھ دیا کہ اس سورت میں کچھ آیات رہ گئی ہیں، مگر یہ بات غلط ہے، کیونکہ اس کا رد خود ان آیات میں موجود ہے کہ قرآن کا جمع کرنا اللہ کے ذمے ہے، پھر اس میں سے آیات کس طرح رہ سکتی ہیں؟ اور یہ بات بھی صحیح سندوں سے ثابت ہے کہ قرآن مجید کی آیات کی یہ ترتیب خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بتائی ہوئی ہے، جیسا کہ عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایک وقت میں کئی سورتیں نازل ہو رہی ہوتی تھیں، جب کوئی چیز نازل ہوتی تو آپ کسی وحی لکھنے والے کو بلا کر فرماتے کہ یہ آیات اس سورت میں لکھو جس میں فلاں فلاں بات کا ذکر ہے اور جب آپ پر کوئی آیت اترتی تو فرماتے اسے اس سورت میں لکھ دو جس میں فلاں فلاں بات کا ذکر ہے۔ [ترمذي، التفسیر، باب سورۃ التوبۃ : ۳۰۸۶] ابو داؤد، نسائی، مسنداحمد، مستدرک حاکم اور صحیح ابن حبان میں بھی یہ حدیث موجود ہے۔ اگرچہ بعض مفسرین نے ان آیات کا ربط ما قبل اور ما بعد کے ساتھ بنانے کی کوشش کی ہے مگر ابن عباس رضی اللہ عنھما کی تفسیر کے بعد جو بہترین سندوں کے ساتھ امام بخاری رحمہ اللہ نے نقل فرمائی ہے، خود ساختہ ربط کی تکلیف اٹھانا سراسر تکلف ہے۔ صحیح بات یہی ہے کہ اس سورت کے نازل ہونے کے وقت اور سورۂ طٰہٰ کی آیت (۱۱۴) : ﴿ وَ لَا تَعْجَلْ بِالْقُرْاٰنِ مِنْ قَبْلِ اَنْ يُّقْضٰى اِلَيْكَ وَحْيُهٗ ﴾ نازل ہونے کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جبریل علیہ السلام کے ساتھ پڑھنے کا موقع پیش آیا اور اس وقت ممانعت کا یہ حکم نازل ہوا اور اس مقام پر قرآن میں لکھ دیا گیا۔ اس کی مثال ایسے ہی سمجھیں جیسے کوئی استاذ شاگرد کو کوئی چیز پڑھا رہا ہو اور درمیان میں اس کی کسی حرکت کی اصلاح کے لیے کہے’’ ایسا مت کرو‘‘ اور پہلا سلسلہ کلام جاری کر دے تو ٹیپ ریکارڈر میں یہ بات بھی ریکارڈ ہو جائے گی اور لفظ بلفظ تحریر میں بھی اسی طرح نقل ہو گی۔ درمیان میں آنے والی اس بات کا معنوی ربط و تعلق ما قبل و ما بعد سے جوڑنا تکلف ہو گا، مگر اس بات کو بے محل نہیں کہہ سکتے، یقیناً اس موقع پر یہی بات ضروری تھی اور یہ بھی ربط کی ایک صورت ہے کہ موقع و محل کے تقاضے سے یہ الفاظ درمیان میں آگئے۔