سورة النسآء - آیت 66

وَلَوْ أَنَّا كَتَبْنَا عَلَيْهِمْ أَنِ اقْتُلُوا أَنفُسَكُمْ أَوِ اخْرُجُوا مِن دِيَارِكُم مَّا فَعَلُوهُ إِلَّا قَلِيلٌ مِّنْهُمْ ۖ وَلَوْ أَنَّهُمْ فَعَلُوا مَا يُوعَظُونَ بِهِ لَكَانَ خَيْرًا لَّهُمْ وَأَشَدَّ تَثْبِيتًا

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

اور اگر ہم ان پر واجب کردیتے کہ وہ اپنے آپ کو قتل کریں یا اپنے گھروں سے نکل جائیں تو ماسوائے چند آدمیوں کے ان میں سے کوئی بھی ایسا [٩٨] نہ کرتا۔ اور اگر وہ وہی کچھ کرلیتے جو انہیں نصیحت کی جاتی ہے تو یہ بات ان کے حق میں بہتر اور زیادہ ثابت قدمی کا موجب بن جاتی

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

1۔ ان آیات کا تعلق بھی منافقین سے ہے، ان میں انھیں اخلاص اور ترک نفاق کی ترغیب دی گئی ہے۔ یعنی چاہیے تو یہ کہ اللہ تعالیٰ کا حکم ماننے میں جان دینے سے بھی دریغ نہ کیا جائے، (مگر یہ ایسے ہیں کہ ) اگر کہیں ان کو اللہ تعالیٰ اپنی جانیں ہلاک کر ڈالنے یا اپنے گھر چھوڑ دینے کا حکم دے دیتا تو یہ اسے کب بجا لانے والے تھے، جو حکم ہم نے انھیں دیے ہیں وہ نہایت آسان اور محض ان کی خیر خواہی کے لیے ہیں، نصیحت مانیں اور ان احکام پر چلیں، نفاق جاتا رہے گا، ایمان کامل نصیب ہو گا، اس کو غنیمت سمجھیں۔ (موضح) 2۔ ابن عاشور فرماتے ہیں کہ میرے خیال میں یہ تمہید ہے جہاد کے ان احکام کی جو ساتھ ہی شروع ہو رہے ہیں : ﴿ يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا خُذُوْا حِذْرَكُمْ فَانْفِرُوْا ثُبَاتٍ اَوِ انْفِرُوْا جَمِيْعًا ﴾ [ النساء : ۷۱ ] اور ان آیات کے ساتھ مناسبت یہ بھی ہے کہ اگر ہم ان پر ہجرت یا قتال یعنی ﴿ اَنِ اقْتُلُوْۤا اَنْفُسَكُمْ اَوِ اخْرُجُوْا مِنْ دِيَارِكُمْ ﴾ فرض کر دیتے تو بہت کم لوگ اس پر عمل کرتے، لیکن اگر وہ ایسا کرتے تو ان کے لیے بہتر ہوتا اور بے شمار اجر کا باعث ہوتا۔ یعنی ابھی تو ایمان کے اعلیٰ مدارج جو اسلام کی کوہان کی چوٹی ہیں، ان کا حکم بھی آنے والا ہے، کجا یہ کہ یہ لوگ فیصلے بھی کہیں اور سے کروانا چاہتے ہیں۔ [ التحریر والتنویر ]