قُمِ اللَّيْلَ إِلَّا قَلِيلًا
رات کا تھوڑا حصہ چھوڑ [٣] کر باقی رات (نماز میں) کھڑے رہا کیجئے
1۔ قُمِ الَّيْلَ اِلَّا قَلِيْلًا ....: تھوڑا حصہ چھوڑ کر ساری رات کا قیام کر۔ ’’نِصْفَهٗ ‘‘ ’’ الَّيْلَ‘‘ سے بدل ہے، مگر اس ’’ الَّيْلَ ‘‘ سے جس میں سے ’’ قَلِيْلًا ‘‘ کا استثنا ہو چکا ہے۔ ’’ قَلِيْلًا ‘‘ کا لفظ چونکہ مجمل ہے، اس لیے اب یہ بتایا جا رہا ہے کہ رات کا تھوڑا حصہ چھوڑ کر جس حصے کا قیام کرنا ہے وہ کتنا ہونا چاہیے۔ فرمایا رات کا نصف قیام کریں یا نصف سے کچھ کم کرلیں یا نصف سے زیادہ کرلیں۔ اس سورت کی آخری آیت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام ان آیات کے نزول کے بعد رات کی دو تہائی کے قریب اور رات کے نصف اور رات کی تہائی کے برابر قیام کرتے تھے۔ اس سے معلوم ہوا کہ’’ نصف سے کچھ کم‘‘ کا مطلب ثلث اور ’’نصف سے زیادہ‘‘ کا مطلب دو ثلث کے قریب ہے۔ ’’ مِنْهُ‘‘ اور ’’ عَلَيْهِ ‘‘ کی ضمیریں ’’ نِصْفَهٗ ‘‘ کی طرف لوٹ رہی ہیں۔ اس تقریر سے وہ سوال حل ہو جاتا ہے کہ ’’ اِلَّا قَلِيْلًا‘‘کے بعد ’’ اَوِ انْقُصْ مِنْهُ قَلِيْلًا‘‘ میں تکرار ہے۔ اس سوال کا ایک اور حل یہ ہے کہ ’’ قُمِ الَّيْلَ اِلَّا قَلِيْلًا ‘‘ کا ترجمہ یہ کیا جائے کہ ’’رات کا قیام کر مگر کسی رات رہ جائے تو مضائقہ نہیں۔‘‘ ’’ نِصْفَهٗ ‘‘ سے یہ بیان شروع ہوتا ہے کہ رات کا کتنا حصہ قیام میں گزارنا ہے، یہ تفسیر بھی درست ہے۔ 2۔ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قیام اللیل کا حکم دے کر اس کی تاکید فرمائی ہے۔ تہجد، وتر، قیام رمضان اور تراویح سب قیام اللیل ہی کے نام ہیں۔ اہلِ علم میں اختلاف ہے کہ یہ نماز فرض ہے یا سنت اور اگر فرض ہے تو صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر فرض تھی یا پوری امت پر فرض ہے؟قرطبی میں ہے کہ حسن اور ابنِ سیرین اس بات کے قائل ہیں کہ رات کو نماز ہر مسلم پر فرض ہے خواہ بکری کا دودھ دوہنے کے برابر پڑھے، مگر اکثر علماء فرماتے ہیں اور صحیح بھی یہی ہے کہ قیام اللیل امت پر فرض نہیں بلکہ یہ ایسی سنت ہے جس کی بہت تاکید کی گئی۔ سورۂ مزمل کے آخر میں فرمایا : ﴿اِنَّ رَبَّكَ يَعْلَمُ اَنَّكَ تَقُوْمُ اَدْنٰى مِنْ ثُلُثَيِ الَّيْلِ وَ نِصْفَهٗ وَ ثُلُثَهٗ وَ طَآىِٕفَةٌ مِّنَ الَّذِيْنَ مَعَكَ﴾ [المزمل:۲۰ ] یعنی آپ کے ساتھیوں کی ایک جماعت بھی آپ کے ساتھ اتنا قیام کرتی ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ صحابہ کی صرف ایک جماعت قیام کرتی تھی، اگر یہ فرض ہوتا تو ایک جماعت کے بجائے تمام صحابہ قیام کرتے۔ صحیحین میں طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سائل کو ارکان دین بتائے اور نمازوں میں سے دن رات میں صرف پانچ نمازیں فرض بتائیں، اس نے پوچھا : ’’کیا مجھ پر اس کے علاوہ بھی کچھ فرض ہے؟‘‘ تو آپ نے فرمایا : (( لاَ، إِلاَّ أَنْ تَطَوَّعَ )) [ بخاري، الإیمان، باب الزکاۃ من الإسلام:۴۶۔ مسلم: ۱۱] ’’نہیں، الا یہ کہ تم اپنی خوشی سے پڑھو۔‘‘ صحیحین ہی میں عائشہ رضی اللہ عنھا سے مروی ہے کہ ایک رمضان میں تین راتیں لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جماعت کی صورت میں قیام میں شریک ہوتے رہے۔ چوتھی رات آپ باہر تشریف نہیں لائے اور فرمایا : (( أَنِّيْ خَشِيْتُ أَنْ تُفْرَضَ عَلَيْكُمْ )) [ بخاري، التھجد، باب تحریض النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم ....: ۱۱۲۹۔ مسلم : ۷۶۱ ] ’’میں اس بات سے ڈرا کہ تم پر (یہ نماز) فرض نہ ہو جائے۔‘‘ اگر قیام اللیل فرض ہوتا تو آپ اس کے ان پر (یہ نماز) فر ض ہو جانے سے کیوں ڈرتے؟ رہی یہ بات کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر قیام اللیل فرض تھا یا نہیں تو اس کے لیے دیکھیے سورۂ بنی اسرائیل کی آیت (۷۹) کی تفسیر۔ فرض نہ ہونے کے باوجود قیام اللیل کی تاکید و فضیلت قرآن و حدیث میں بہت آئی ہے، ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( أَفْضَلُ الصَّلَاةِ بَعْدَ الصَّلَاةِ الْمَكْتُوْبَةِ الصَّلَاةُ فِيْ جَوْفِ اللَّيْلِ )) [ مسلم، الصیام، باب فضل صوم المحرم : ۲۰۳ ؍۱۱۶۳] ’’فرض نماز کے بعد سب سے افضل نماز رات کی نماز ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے اپنے مومن اور متقی بندوں کی شان میں فرمایا : ﴿ تَتَجَافٰى جُنُوْبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ يَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَّ طَمَعًا وَّ مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ يُنْفِقُوْنَ ﴾ [السجدۃ : ۱۶ ] ’’ان کے پہلو بستروں سے جدا رہتے ہیں، اپنے رب کو ڈرتے ہوئے اور امید کرتے ہوئے پکارتے ہیں اور ہم نے انھیں جو کچھ دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔‘‘ اور فرمایا : ﴿ كَانُوْا قَلِيْلًا مِّنَ الَّيْلِ مَا يَهْجَعُوْنَ ﴾ [ الذاریات : ۱۷ ] ’’وہ رات کے تھوڑے حصے میں سویا کرتے تھے۔‘‘ اور فرمایا : ﴿وَ مِنَ الَّيْلِ فَتَهَجَّدْ بِهٖ نَافِلَةً لَّكَ عَسٰى اَنْ يَّبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا ﴾ [ بني إسرائیل : ۷۹ ] ’’اور رات کے کچھ حصے میں پھر اس کے ساتھ بیدار رہ، اس حال میں کہ تیرے لیے زائد ہے۔ قریب ہے کہ تیرا رب تجھے مقام محمود پر کھڑا کرے۔‘‘ عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( مَنْ قَامَ بِعَشْرِ آيَاتٍ لَّمْ يُكْتَبْ مِنَ الْغَافِلِيْنَ وَمَنْ قَامَ بِمِائَةِ آيَةٍ كُتِبَ مِنَ الْقَانِتِيْنَ وَمَنْ قَامَ بِأَلْفِ آيَةٍ كُتِبَ مِنَ الْمُقَنْطِرِيْنَ )) [ أبو داؤد، تفریع أبواب شھر رمضان، باب تحزیب القرآن : ۱۳۹۸، وقال الألباني صحیح ] ’’جو شخص دس آیات کے ساتھ قیام کرے وہ غافلین میں نہیں لکھا جاتا، جو سو آیات کے ساتھ قیام کرے وہ قانتین (عبادت گزاروں) میں لکھا جاتا ہے اور جو ہزار آیات کے ساتھ قیام کرے وہ مقنطرین (خزانے والوں) میں لکھا جاتا ہے۔‘‘ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( رَحِمَ اللّٰهُ رَجُلاً قَامَ مِنَ اللَّيْلِ فَصَلّٰی وَأَيْقَظَ امْرَأَتَهُ فَإِنْ أَبَتْ نَضَحَ فِيْ وَجْهِهَا الْمَاءَ، رَحِمَ اللّٰهُ امْرَأَةً قَامَتْ مِنَ اللَّيْلِ فَصَلَّتْ وَأَيْقَظَتْ زَوْجَهَا فَإِنْ أَبٰی نَضَحَتْ فِيْ وَجْهِهِ الْمَاءَ)) [أبوداؤد، التطوع، باب قیام اللیل : ۱۳۰۸، وقال الألباني حسن صحیح ] ’’اللہ تعالیٰ اس آدمی پر رحم کرے جو رات کو اٹھا، نماز پڑھی اور اپنی بیوی کو جگایا ( اور اس نے بھی نماز پڑھی)، اگر اس نے انکار کیاتو اس کے منہ پر پانی کے چھینٹے مارے۔ اللہ تعالیٰ اس عورت پر رحم کرے جو رات کو اٹھی اور نماز پڑھی، خاوند کو جگایا (اور اس نے بھی نماز پڑھی)، اگر اس نے انکار کیا تو اس کے منہ پر پانی کے چھینٹے مارے۔‘‘ رات کے اوقات میں سے بھی رات کے آخری حصے میں قیام کی فضیلت زیادہ ہے۔ عمروبن عبسہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( أَقْرَبُ مَا يَكُوْنُ الرَّبُّ مِنَ الْعَبْدِ فِيْ جَوْفِ اللَّيْلِ الْآخِرِ فَإِنِ اسْتَطَعْتَ أَنْ تَكُوْنَ مِمَّنْ يَّذْكُرُ اللّٰهَ فِيْ تِلْكَ السَّاعَةِ فَكُنْ )) [ ترمذي، الدعوات، باب : ۳۵۷۹، و صححہ الألباني في صحیح الجامع ] ’’رب تعالیٰ بندے کے سب سے زیادہ قریب رات کے آخری حصے میں ہوتا ہے، اگر تو یہ کر سکے کہ اس وقت اللہ کا ذکر کرنے والوں میں سے ہو تو یہ کام کر۔‘‘ قیام اللیل کا سب سے بہتر طریقہ داؤد علیہ السلام کا طریقہ ہے۔ عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنھما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( أَحَبُّ الصَّلاَةِ إِلَی اللّٰهِ صَلاَةُ دَاؤدَ عَلَيْهِ السَّلَامُ وَكَانَ يَنَامُ نِصْفَ اللَّيْلِ وَيَقُوْمُ ثُلُثَهُ وَ يَنَامُ سُدُسَهُ )) [ بخاري، التھجد، باب من نام عند السحر : ۱۱۳۱ ] ’’اللہ تعالیٰ کو نمازوں میں سے سب سے محبوب نماز داؤد علیہ السلام کی نماز ہے، وہ رات کا نصف سو جاتے اور اس کا تیسرا حصہ قیام کرتے اور چھٹا حصہ سو جاتے۔‘‘ 3۔ ’’ وَ رَتِّلِ الْقُرْاٰنَ‘‘اور قرآن کو ٹھہرٹھہر کر پڑھ۔ ’’ تَرْتِيْلًا‘‘ مصدر تاکید کے لیے ہے، خوب ٹھہر ٹھہر کر پڑھ۔ اس میں بتایا ہے کہ رات کے قیام میں پڑھنا کیا ہے؟ سو حکم ہوا کہ قرآن پڑھیں اور خوب ٹھہر ٹھہر کر پڑھیں۔ ترتیل میں کئی چیزیں شامل ہیں، ان میں سے پہلی یہ ہے کہ ٹھہر ٹھہر کر پورے غور و فکر کے ساتھ تلاوت کی جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس حکم کے مطابق خوب ٹھہر ٹھہر کر تلاوت کیا کرتے تھے۔ حفصہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں : (( وَ كَانَ يَقْرَأُ بِالسُّوْرَةِ فَيُرَتِّلُهَا حَتّٰی تَكُوْنَ أَطْوَلَ مِنْ أَطْوَلَ مِنْهَا )) [ مسلم، صلاۃ المسافرین، باب جواز النافلۃ قائمًا و قاعدًا....: ۷۳۳ ] ’’اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سورت کی تلاوت کرتے اور اسے اتنا ٹھہر ٹھہر کر پڑھتے کہ وہ اس سے لمبی سورت سے بھی لمبی ہو جاتی۔‘‘ دوسری چیز جو ترتیل میں شامل ہے، یہ ہے کہ ہر لفظ الگ الگ سمجھ میں آئے، چنانچہ یعلیٰ بن مملک نے ام سلمہ رضی اللہ عنھا سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قراء ت اور نماز کے متعلق سوال کیا، انھوں نے پہلے آپ کی رات کی نماز کا حال بیان کیا : (( ثُمَّ نَعَتَتْ قِرَاءَتَهٗ فَإِذَا هِيَ تَنْعَتُ قِرَاءَةً مُّفَسَّرَةً حَرْفًا حَرْفًا )) [ ترمذي، فضائل القرآن، باب ما جاء کیف کانت قراء ۃ النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم : ۲۹۲۳ ] ’’پھر ام سلمہ رضی اللہ عنھا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قراء ت کی صفت بیان کی تو انھوں نے ایسی قراء ت بیان کی جس کا ایک ایک حرف واضح کیا گیا تھا۔‘‘ تیسری چیز ہر آیت پرٹھہرنا ہے، بعض لوگ ایک ہی سانس میں وقف کے بغیر آیت کے ساتھ آیت ملائے جاتے ہیں اور اسے کمال سمجھتے ہیں، حالانکہ یہ سنت کے خلاف ہے، جیسا کہ ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں : (( كَانَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُقَطِّعُ قِرَاءَتَهٗ وَ فِيْ رِوَايَةِ أَبِيْ دَاؤدَ : يُقَطِّعُ قِرَاءَتَهٗ آيَةً آيَةً يَقْرَأُ : ﴿ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ﴾ ثُمَّ يَقِفُ ﴿ اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ ﴾ ثُمَّ يَقِفُ )) [ ترمذي، القرائات، باب في فاتحۃ الکتاب : ۲۹۲۷۔ أبو داؤد : ۴۰۰۱، وصححہ الألباني في صحیح الجامع الصغیر ] ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قراء ت الگ الگ کر کے پڑھتے تھے۔‘‘ اور ابو داؤد کی روایت میں ہے : ’’آپ اپنی قراء ت ایک ایک آیت الگ کر کے پڑھتے تھے۔‘‘ آپ ’’ اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ ‘‘ پڑھتے اور ٹھہر جاتے، پھر ’’ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ ‘‘ پڑھتے اور ٹھہر جاتے۔‘‘ چوتھی چیز یہ ہے کہ حروف مدّہ کو لمبا کرکے پڑھا جائے۔ قتادہ فرماتے ہیں : (( سُئِلَ أَنَسٌ كَيْفَ كَانَتْ قِرَاءَةُ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَقَالَ كَانَتْ مَدًّا ثُمَّ قَرَأَ: ﴿ بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ﴾ يَمُدُّ بِبِسْمِ اللّٰهِ وَ يَمُدُّ بِالرَّحْمٰنِ وَ يَمُدُّ بِالرَّحِيْمِ )) [ بخاري، فضائل القرآن، باب مد القراءۃ : ۵۰۴۶ ] ’’انس رضی اللہ عنہ سے سوال کیا گیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قراء ت کیسی تھی؟ تو انھوں نے فرمایا: ’’آپ کی قراء ت کھینچ کھینچ کر ہوتی تھی۔‘‘ پھر انھوں نے ’’ بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ ‘‘ پڑھی۔ وہ ’’ بِسْمِ اللّٰهِ ‘‘ کو لمبا کر کے پڑھتے تھے اور ’’ الرَّحْمٰنِ ‘‘ کو لمبا کرکے پڑھتے اور ’’الرَّحِيْمِ ‘‘ کو لمبا کر کے پڑھتے تھے۔‘‘ پانچویں یہ کہ قرآن کو خوب صورت لہجے اور خوش آوازی سے پڑھا جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( لَيْسَ مِنَّا مَنْ لَّمْ يَتَغَنَّ بِالْقُرْآنِ )) [ بخاري، التوحید، باب قول اللّٰہ تعالٰی : وأسروا قولکم....: ۷۵۲۷ ] ’’جو شخص قرآن کو خوبصورت لہجے اور خوش آوازی سے نہ پڑھے وہ ہم میں سے نہیں۔‘‘ غرض ترتیل کا مطلب یہ ہے کہ قرآن مجید کو خوب غور و فکر کے ساتھ، ٹھہر ٹھہر کر، الفاظ کی واضح ادائیگی کے ساتھ اور حروف مدّہ کو لمبا کرکے جس قدر خوش آوازی کے ساتھ ہو سکے پڑھا جائے۔