وَأَنَّا مِنَّا الْمُسْلِمُونَ وَمِنَّا الْقَاسِطُونَ ۖ فَمَنْ أَسْلَمَ فَأُولَٰئِكَ تَحَرَّوْا رَشَدًا
اور یہ کہ : ہم میں سے کچھ تو مسلمان (فرمانبردار) ہیں اور کچھ بے انصاف لوگ ہیں اور جو فرمانبردار بن گیا تو ایسے ہی لوگوں نے بھلائی کا راستہ اختیار [١٢] کیا
1۔ وَ اَنَّا مِنَّا الْمُسْلِمُوْنَ وَ مِنَّا الْقٰسِطُوْنَ ....: ’’الْقٰسِطُوْنَ‘‘ ظلم کرنے والے، راہِ حق سے ہٹنے والے۔ ’’قَسَطَ يَقْسِطُ‘‘ (ض) ’’قَسْطًا‘‘( قاف کے فتحہ کے ساتھ) ظلم کرنا، سیدھی راہ سے ہٹنا۔’’ اَلْقِسْطُ‘‘ (قاف کے کسرہ کے ساتھ) انصاف۔ ’’أَقْسَطَ يُقْسِطُ‘‘ (افعال) انصاف کرنا۔ یعنی ہدایت سننے کے بعد ہم میں سے کچھ وہ ہیں جو تابع فرمان ہو گئے۔ یہ وہ ہیں جن کا ارادہ ہے کہ پوری کوشش کے ساتھ سیدھی راہ پر چلیں۔ ’’تَحَرّٰي يَتَحَرّٰي تَحَرِّيًا‘‘ قصد کرنا، کوشش کے ساتھ ظن سے یقین تک پہنچنا۔ اور جو راہ حق سے ہٹے ہوئے ہیں وہ جہنم کا ایندھن بنیں گے۔ 2۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ جن آگ سے پیدا کیے گئے ہیں، وہ جہنم کا ایندھن کیسے بنیں گے؟ جواب یہ ہے کہ جس طرح انسان مٹی سے بنا ہے مگر مٹی کا ڈھیلا مارا جائے تو اسے تکلیف ہوتی ہے اور ہر زندہ چیز پانی سے پیدا ہوئی ہے، جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ وَ جَعَلْنَا مِنَ الْمَآءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍّ ﴾ [الأنبیاء: ۳۰ ] (اور ہم نے پانی سے ہر زندہ چیز بنائی) مگر یہی پانی اسے غرق کر دیتا ہے۔ پانی آگ کو بجھا دیتا ہے، مگر یہی پانی جنوں کے لیے جو آگ سے بنے ہیں نعمت ہے، جیساکہ سورۂ رحمن کی آیات(۵۰، ۶۶) میں ہے اور اسی سورۂ جن کی آیت (۱۶) میں آرہا ہے۔ اصل یہ ہے کہ آگ سے پیدا کیے جانے کے باوجود جنوں کی ایک الگ شکل و صورت ہے جو آگ سے متاثر ہوتی ہے، جس طرح گوشت پوست کا انسان مٹی سے پیدا ہونے کے باوجود مٹی سے الگ شکل و صورت رکھتا ہے۔ یہاں سے جنوں کی تقریر جو اللہ تعالیٰ نے نقل فرمائی ہے ختم ہوئی، آئندہ آیات میں دوبارہ اللہ تعالیٰ کا خطاب شروع ہوتا ہے۔