وَأَنَّهُ كَانَ رِجَالٌ مِّنَ الْإِنسِ يَعُوذُونَ بِرِجَالٍ مِّنَ الْجِنِّ فَزَادُوهُمْ رَهَقًا
اور یہ کہ انسانوں میں سے کچھ لوگ جنوں کے کچھ لوگوں کی پناہ مانگا کرتے تھے چنانچہ انہوں [٥] نے جنوں کے غرور کو اور زیادہ بڑھا دیا تھا
وَ اَنَّهٗ كَانَ رِجَالٌ مِّنَ الْاِنْسِ....: عرب کے بعض مشرک جب کسی خوفناک جگہ یعنی جنگل وغیرہ میں جاتے تو کہتے کہ ہم اس علاقے میں جو جنوں کا سردار ہے، اس کی پناہ میں آتے ہیں۔ اس سے جنوں کی سرکشی اور بڑھ گئی، کیونکہ وہ جان گئے کہ انسان ہم سے ڈرتے ہیں، اس لیے انھوں نے اپنے ماننے والوں کو اور زیادہ ڈرانا شروع کر دیا۔ معلوم ہوا آدمی کو نہ جنوں سے ڈرنا چاہیے، نہ ان کی پناہ مانگنی چاہیے اور نہ کسی غیر اللہ کی دہائی دینی چاہیے، کیونکہ یہ شرک ہے، بلکہ صرف اور صرف اللہ کی پناہ مانگنی چاہیے۔ کسی بھی چیز کے شر سے پناہ مانگنے کے لیے قرآن مجید کی آخری دو سورتوں جیسی کوئی چیز نہیں۔ مزید وضاحت کے لیے ان دو سورتوں کی تفسیر دیکھیں۔ خولہ بنت حکیم رضی اللہ عنھا نے فرمایا کہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ فرما رہے تھے : (( إِذَا نَزَلَ أَحَدُكُمْ مَنْزِلًا فَلْيَقُلْ أَعُوْذُ بِكَلِمَاتِ اللّٰهِ التَّامَّاتِ مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ، فَإِنَّهُ لَا يَضُرُّهُ شَيْءٌ حَتّٰی يَرْتَحِلَ مِنْهُ )) [ مسلم، الذکر و الدعاء، باب في التعوذ من سوء القضاء....:۵۵؍۲۷۰۸] ’’جب تم میں سے کوئی شخص کسی منزل میں اترے تو اسے یہ کلمات کہنے چاہییں، تو اسے وہاں سے کوچ کرنے تک کوئی چیز نقصان نہیں پہنچائے گی : (( أَعُوْذُ بِكَلِمَاتِ اللّٰهِ التَّامَّاتِ مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ )) ’’میں اللہ کے کامل کلمات کی پناہ پکڑتا ہوں ہر اس چیز کے شر سے جو اس نے پیدا کی۔‘‘