أَمْ يَحْسُدُونَ النَّاسَ عَلَىٰ مَا آتَاهُمُ اللَّهُ مِن فَضْلِهِ ۖ فَقَدْ آتَيْنَا آلَ إِبْرَاهِيمَ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَآتَيْنَاهُم مُّلْكًا عَظِيمًا
یا وہ دوسرے لوگوں پر اس لیے [٨٥] حسد کرتے ہیں کہ اللہ نے از راہ فضل انہیں کچھ دے رکھا ہے۔ تو اللہ تعالیٰ نے تو آل ابراہیم کو کتاب و حکمت [٨٦] بھی دی تھی اور بہت بڑی سلطنت بھی دے رکھی تھی
مطلب یہ ہے کہ ابراہیم علیہ السلام کے بیٹے اسحاق علیہ السلام کی اولاد میں مدت دراز تک نبوت اور بادشاہت رہی ہے اور داؤد و سلیمان علیہما السلام اور دوسرے اولوا العزم پیغمبر ہو گزرے ہیں، اب بنو اسماعیل میں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نبوت و رسالت سے سرفراز فرما دیا گیا ہے تو یہ کیوں حسد کر رہے ہیں؟! یہاں ”مِنْ فَضْلِهٖ“ سے مراد نبوت اور دین و دنیا کی وہ عزت ہے جو نبوت کی برکت سے حاصل ہوئی۔ ”الْكِتٰبَ“ سے مراد کتاب الٰہی اور ”وَ الْحِكْمَةَ“ سے اس کا فہم اور اس پر عمل کرنا مراد ہے اور ”مُلْكًا عَظِيْمًا“ سے مراد سلطنت اور غلبہ و اقتدار ہے۔ (رازی، ابن کثیر)