بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے
ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا : ’’آدم اور نوح علیھما السلام کے درمیان کتنی مدت تھی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( عَشَرَةُ قُرُوْنٍ )) ’’دس قرن۔‘‘ [ صحیح ابن حبان، التاریخ، باب ذکر الإخبار عما کان....: ۶۱۹۰ ] حافظ ابن کثیر نے اسے مسلم کی شرط پر صحیح کہا ہے۔ [ البدایۃ والنہایۃ، جلد : ۱، قصۃ نوح ] ابن عباس رضی اللہ عنھما سے مروی ہے، انھوں نے فرمایا : (( كَانَ بَيْنَ نُوْحٍ وَ آدَمَ عَشَرَةُ قُرُوْنٍ كُلُّهُمْ عَلٰي شَرِيْعَةٍ مِّنَ الْحَقِّ فَاخْتَلَفُوْا فَبَعَثَ اللّٰهُ النَّبِيِّيْنَ مُبَشِّرِيْنَ وَ مُنْذِرِيْنَ )) [ مستدرک حاکم:2؍546، ح : ۴۰۰۹ ] ’’آدم اور نوح کے درمیان دس قرن تھے اور وہ سارے کے سارے دین حق پر قائم تھے، پھر جب انھوں نے اختلاف کیا تو اللہ تعالیٰ نے انبیاء کو بھیجا (جو انھیں جنت کی) خوش خبری دیتے اور (عذاب سے) ڈراتے تھے۔‘‘ محقق حکمت بن بشیر نے ابن کثیر میں سورۂ بقرہ کی آیت (۲۱۳) کے تحت کہا کہ یہ حدیث طبری میں بھی ہے اور اس کی سند صحیح ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ شروع میں سب لوگ اللہ کی توحید پر قائم تھے اور شرک و بت پرستی کا وجود نہیں تھا، پھر جیسا کہ زیر تفسیر سورت کی آیت(۲۳) کی تشریح میں آرہا ہے کہ شیطان کے سکھانے سے بت پرستی شروع ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے انھیں شرک سے منع کرنے اور اللہ واحد کی عبادت کی تبلیغ کے لیے نوح علیہ السلام کو بھیجا، آپ اللہ تعالیٰ کے پہلے رسول ہیں جو زمین والوں کی طرف بھیجے گئے، جیسا کہ حدیث شفاعت میں ہے۔ [ دیکھیے بخاري، الأنبیاء، باب : ﴿ذریۃ من حملنا....﴾ : ۴۷۱۲ ] رسالت ملنے کے بعد آپ علیہ السلام ساڑھے نو سو (۹۵۰) سال اپنی قوم کو سمجھاتے رہے، جب وہ نافرمانی سے باز نہ آئے تو انھیں پانی کے طوفان سے غرق کر دیا گیا۔ (دیکھیے عنکبوت : ۱۴) یہ پوری سورت نوح علیہ السلام کی دعوت، اس کے جواب میں قوم کے طرز عمل اور ان کے انجام کی تفصیل پر مشتمل ہے اور اس کا نام بھی اسی جلیل القدر پیغمبر کے نام پر ہے۔