وَالَّذِينَ فِي أَمْوَالِهِمْ حَقٌّ مَّعْلُومٌ
اور جن کے اموال میں کا ایک مقرر حق [١٦] ہے
وَ الَّذِيْنَ فِيْ اَمْوَالِهِمْ حَقٌّ مَّعْلُوْمٌ ....: اس آیت سے معلوم ہوا کہ صدقہ و زکوٰۃ مکہ میں بھی فرض تھے اور وہاں بھی اہل ایمان اپنے اموال میں سے ایک مقرر حصہ نکالتے تھے، کیونکہ یہ سورت مکی ہے، بلکہ مشرکین بھی اپنی کھیتی اور مویشیوں میں سے بتوں کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ کا ایک مقرر حصہ نکالتے تھے۔ (دیکھیے انعام : ۱۳۶) اس سے بہت پہلے اسماعیل علیہ السلام بھی اپنے اہل کو نماز اور زکوٰۃ کا حکم دیا کرتے تھے۔ (دیکھیے مریم : ۵۵) ہاں زکوٰۃ کا موجودہ مخصوص نصاب مدینہ میں مقرر ہوا، اتنے فرض کی ادائیگی کے بغیر تو آدمی مسلمان ہی نہیں ہوتا۔ البتہ اہلِ ایمان کی کوشش ہوتی ہے کہ اس کے علاوہ بھی اللہ کی راہ میں خرچ کریں، یہ ہر شخص کی اپنی صوابدید ہے کہ وہ اس کی راہ میں کتنا حصہ مقرر کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ ویسا ہی معاملہ کرتا ہے۔ صحیح مسلم میں ایک شخص کا واقعہ مذکور ہے جس کا نام لے کر بادلوں کو حکم ہوا کہ اس کے باغ کو پانی پلائیں۔ وہ شخص اپنے باغ کی آمدنی کے تین حصے کرتا تھا، جس میں سے ایک حصہ اللہ کی راہ میں خرچ کرتا تھا۔ [ دیکھیے مسلم : ۲۹۸۴ ] حقیقت یہ ہے کہ اللہ کی راہ میں خرچ کیے بغیربے صبری اور بخل کی کمینگی دور ہو ہی نہیں سکتی۔ ’’ الْمَحْرُوْمِ ‘‘ میں وہ بھی شامل ہے جس کا کوئی ذریعۂ معاش نہیں یا کسی آفت کی وجہ سے اپنے سرمایہ سے محروم ہو گیا ہے اور وہ بھی جسے ضرورت مند ہونے کے باوجود سوال نہ کرنے کی وجہ سے کچھ نہیں دیا جاتا۔