وَلَا يَسْأَلُ حَمِيمٌ حَمِيمًا
اس دن کوئی جگری دوست اپنے جگری دوست کو نہ پوچھے گا
وَ لَا يَسْـَٔلُ حَمِيْمٌ حَمِيْمًا ....: کوئی دوست کسی دوست کو نہیں پوچھے گا، اس لیے نہیں کہ وہ دکھائی نہیں دے رہا ہو گا، بلکہ ’’ يُبَصَّرُوْنَهُمْ ‘‘ ہر شخص کو اس کے عزیز دوست دکھلائے جا رہے ہوں گے اور آنکھوں کے سامنے ہوں گے۔ نہ پوچھنے کی وجہ یہ ہو گی کہ ہر ایک کو اپنی پڑی ہوگی، مجرم دنیا میں جن جن پر اپنی جان قربان کرتا تھا اس دن سب کو، بلکہ تمام دنیا کے لوگوں کو اپنی جان بچانے کے لیے عذابِ الٰہی کے حوالے کر دینا پسند کرے گا۔ اس مقام پر رشتہ داروں کی ترتیب میں پہلے ان کا ذکر کیاجو سب سے زیادہ محبوب ہیں، یعنی بیٹے، بیوی، بھائی، خاندان اور سورۂ عبس (۳۴تا۳۶) میں اس کا الٹ ہے۔ ’’ فَصِيْلَتِهِ ‘‘ خاندان، کنبہ، کیونکہ وہ قبیلے سے جدا ہوتا ہے ۔ ’’ تُـْٔوِيْهِ ‘‘ ’’اٰوٰي يُؤْوِيْ‘‘ (افعال) جگہ دینا، پناہ دینا۔