إِنِّي ظَنَنتُ أَنِّي مُلَاقٍ حِسَابِيَهْ
مجھے یقین تھا کہ مجھے اپنا حساب [١٦] ملنے والا ہے۔
اِنِّيْ ظَنَنْتُ اَنِّيْ مُلٰقٍ حِسَابِيَهْ : ’’ اِنِّيْ ظَنَنْتُ ‘‘ یقیناً میں نے سمجھ لیا تھا۔ ’’ظن‘‘ کا لفظ وہم، گمان اور یقین تینوں چیزوں کے لیے آتا ہے، کیونکہ یہ اصل میں علامات اور نشانیوں کے ذریعے سے حاصل ہونے والی چیز کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ نشانیاں کمزور ہوں تو وہم یا گمان تک معاملہ رہتا ہے، اگر مضبوط ہوں توغالب گمان اور علم و یقین کا معنی دیتا ہے۔ خصوصاً جب اس کے ساتھ ’’إِنَّ‘‘ بھی ہو۔ (مفردات) یہاں ’’ ظَنَنْتُ ‘‘ کا لفظ غالب گمان کے معنی میں ہے، جو دن بدن دلائل کے ساتھ یقین میں بدلتا جاتا ہے، اسی غالب گمان ہی کی وجہ سے انسان قیامت کے دن کے حساب سے ڈر کر اللہ کی نافرمانی سے بچتا ہے۔اگر مکمل یقین کے بغیر وہ اللہ کی نافرمانی چھوڑنے پر تیار نہ ہو تو مکمل یقین تو قیامت سامنے آنے ہی پر ہو گا اور اس وقت اس یقین کا کوئی فائدہ نہیں۔صاحب احسن التفاسیر فرماتے ہیں: ’’قرآن شریف میں یقین کی جگہ ظن کا لفظ عقبیٰ کی باتوں میں اس لیے بولا گیا ہے کہ ان باتوں کا پورا یقین مرنے کے بعد ہو گا۔‘‘ خلاصہ آیت کا یہ ہے کہ وہ اپنی خوش قسمتی کی وجہ یہ بتائے گا کہ اس نے دنیا میں یہ سمجھ کر زندگی بسر کی کہ آخر ایک دن اس کا حساب ہونا ہے۔