إِنَّا لَمَّا طَغَى الْمَاءُ حَمَلْنَاكُمْ فِي الْجَارِيَةِ
جب پانی کا طوفان حد سے بڑھا تو ہم نے ہی تمہیں [٨] کشتی میں سوار کردیا تھا
اِنَّا لَمَّا طَغَا الْمَآءُ....: نوح علیہ السلام کے واقعہ کی طرف اشارہ ہے۔ ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے اپنے احسان کا ذکر کیا ہے، فرمایا نوح( علیہ السلام ) کی قوم کے کفر و شرک پر اصرار کی وجہ سے جب پانی اتنا بڑھا کہ عام حدوں سے کہیں اونچا ہو گیا تو ہمیں تھے جنھوں نے تمھیں اس سے پہلے ہی کشتی میں سوار کر لیا اور پھر اتنے بے حساب پانی میں اس کشتی کو محفوظ رکھا، ورنہ اس طوفان سے بچنے کی کوئی صورت نہ تھی۔ یہاں اگرچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے بعد کے زمانے کے لوگوں سے خطاب ہو رہا ہے، مگر مراد یہی ہے کہ تمھارے آباء کو سوار کیا، وہ سوار ہوئے تو تم بھی سوار ہوئے، کیونکہ تم ان کی پشتوں میں تھے۔ اگر وہ اس کشتی میں سوار ہو کر طوفان سے نجات نہ پاتے تو آج تمھارا وجود بھی نہ ہوتا۔