سَخَّرَهَا عَلَيْهِمْ سَبْعَ لَيَالٍ وَثَمَانِيَةَ أَيَّامٍ حُسُومًا فَتَرَى الْقَوْمَ فِيهَا صَرْعَىٰ كَأَنَّهُمْ أَعْجَازُ نَخْلٍ خَاوِيَةٍ
اللہ تعالیٰ نے اس آندھی کو ان پر متواتر سات راتیں اور آٹھ دن مسلط کیے رکھا۔ آپ (وہاں ہوتے تو) دیکھتے کہ وہاں لوگ یوں (چاروں شانے) چت گرے پڑے [٦] ہیں جیسے وہ کھجوروں کے کھوکھلے تنے ہوں
سَخَّرَهَا عَلَيْهِمْ سَبْعَ لَيَالٍ....: ’’ حُسُوْمًا ‘‘ کا معنی ابن عباس رضی اللہ عنھما نے ’’پے در پے‘‘ کیا ہے۔ (ابن جریر) اس صورت میں یہ ’’حَسَمْتُ الدَّابَةَ‘‘ ( میں نے جانور کو پے در پے داغ لگائے) سے مشتق ہے، یعنی اللہ تعالیٰ نے وہ آندھی ان پر سات راتیں اور آٹھ دن مسلسل چلائے رکھی، ایک لمحہ کے لیے بھی نہیں رکی۔’’حَسَمَ يَحْسِمُ‘‘ (ض) کا معنی ’’جڑ سے کاٹنا‘‘ بھی ہے۔ اس صورت میں یہ’’حَاسِمٌ ‘‘ کی جمع ہے، جیسے ’’شَاهِدٌ‘‘ کی جمع ’’شُهُوْدٌ‘‘ ہے، معنی ہو گا ’’ان پر وہ آندھی جڑ سے کاٹ ڈالنے والی سات راتوں اور آٹھ دنوں تک چلائے رکھی۔‘‘ ’’ حُسُوْمًا ‘‘ مصدر بھی ہو سکتا ہے، جیسے ’’شُكُوْرٌ‘‘ اور ’’كُفُوْرٌ‘‘ ہے، اس صورت میں یہ مفعول لہ ہو گا، یعنی ان پر وہ آندھی سات راتیں اور آٹھ دن جڑ سے کاٹ ڈالنے کے لیے چلائے رکھی ۔ مزید تراکیب کے لیے طویل کتب تفسیر ملاحظہ فرمائیں۔ ’’ صَرْعٰى ‘‘ ’’صَرِيْعٌ‘‘ کی جمع ہے، پچھاڑ کر گرائے ہوئے، ہلاک کیے ہوئے۔ ’’ اَعْجَازُ ‘‘ ’’عَجْزٌ وَ عِجْزٌ‘‘ کی جمع ہے،کسی چیز کا آخری حصہ، درخت کا تنا۔ ’’ خَاوِيَةٍ ‘‘ ’’خَوٰي يَخْوِيْ‘‘ (ض) گر پڑنا، خالی ہونا۔ اللہ تعالیٰ نے قوم عاد سے ان کی نافرمانی کی وجہ سے ایک عرصہ تک بارش روکے رکھی، ادھر وہ پیغمبر کو زچ کرنے کے لیے بار بار عذاب کا مطالبہ کر رہے تھے، جب عذاب بادل کی صورت میں نمودار ہوا اور انھوں نے اسے اپنی وادیوں کی طرف بڑھتے ہوئے دیکھا تو خوش ہو گئے کہ اب بارش ہو گی، مگر تھوڑی ہی دیر میں عذاب شرو ع ہو گیا، جو مغرب کی طرف سے آنے والی تیز ٹھنڈی آندھی کی صورت میں تھا، جس نے ہر چیز کو تباہ کرکے رکھ دیا۔ تفصیل کے لیے دیکھیے سورۂ احقاف (۲۱ تا ۲۶)۔ سات راتیں اور آٹھ دن مسلسل چلنے کے بعد آندھی تھمی تو ان کی لاشیں اس طرح گری ہوئی تھیں جیسے کھجور کے کھوکھلے تنے ۔ اہل ایمان کے علاوہ ایک شخص بھی باقی نہ بچا۔ اس تشبیہ سے اس قوم کا مضبوط جسامت اور لمبے قدوں والا ہونا صاف معلوم ہو رہا ہے۔سورۂ احقاف(۲۶) اور سورۃ فجر(۸ تا ۱۰) میں ان کی قوت و شوکت کا کچھ حال بیان ہوا ہے۔ ابن عباس رضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( نُصِرْتُ بِالصَّبَا، وَ أُهْلِكَتْ عَادٌ بِالدَّبُوْرِ )) [ بخاري، أحادیث الأنبیاء، باب قول اللّٰہ تعالٰی: ﴿وأما عاد....﴾ : ۳۳۴۳۔ مسلم : ۹۰۰ ] ’’( خندق کے موقع پر) میری مدد صبا یعنی مشرق سے آنے والی ہوا کے ساتھ کی گئی اور عاد کو دبور یعنی مغرب سے آنے والی ہوا کے ساتھ ہلاک کیا گیا۔‘‘