وَدُّوا لَوْ تُدْهِنُ فَيُدْهِنُونَ
وہ تو چاہتے ہیں کہ اگر آپ نرم رویہ اختیار کریں تو وہ بھی نرم [٧] ہوجائیں
وَدُّوْا لَوْ تُدْهِنُ فَيُدْهِنُوْنَ : ’’ تُدْهِنُ ‘‘ ’’دُهْنٌ‘‘ (تیل) سے مشتق ہے۔ جس طرح چمڑے وغیرہ کو تیل لگا کر نرم کیا جا تا ہے اس طرح بات کو نرم کر دینا۔ یعنی ان کی خواہش ہے کہ آپ اسلام کی تبلیغ میں اپنی سرگرمیاں کم کر دیں تو وہ بھی آپ کو ستانے میں کمی کر دیں، آپ اپنے دین میں کچھ ترمیم کرکے اس میں ان کے شرک اور دوسری گمراہیوں کی کچھ گنجائش نکال لیں تو وہ بھی آپ کے ساتھ صلح کرلیں گے۔ آپ خود جو چاہیں کریں، مگر تمام لوگوں کی زندگی کے ہر شعبہ مثلاً ان کے عقائد، معیشت اور معاشرت و حکومت وغیرہ میں اللہ کے حکم کی تنفیذ پر اصرار چھوڑ دیں تو وہ بھی آپ کے نماز روزے کو برداشت کرلیں، جیسا کہ ہمیشہ کی طرح آج بھی سیکولر لوگوں کا کہنا ہے کہ دین ذاتی مسئلہ ہے، حکومت میں اس کا کوئی دخل نہیں ہونا چاہیے۔ یاد رہے ! جس چیز سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے وہ بات کو نرم کر دینا ہے، لہجے میں نرمی نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آگاہ کیا جا رہا ہے کہ خلق عظیم پر ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ کفار کو نرم کرنے کے لیے آپ اپنے موقف اور عقیدے میں نرمی کر دیں۔ رہی انداز اور لہجے میں نرمی تو وہ آپ کے خلق عظیم کا بھی تقاضا ہے اور اللہ کا حکم بھی۔ گویا آپ کو مداہنت سے منع کیا جا رہا ہے، مدارات سے نہیں۔