ن ۚ وَالْقَلَمِ وَمَا يَسْطُرُونَ
ن [١]۔ قسم ہے قلم کی اور اس کی جو [٢] (کاتبان وحی) لکھتے ہیں
1۔ ’’ نٓ ‘‘ حروف تہجی میں سے ایک حرف ہے۔ مختلف سورتوں کی ابتدا میں آنے والے ان حروف سے اصل مراد اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے ، سب سے قریب بات یہ ہے کہ ان حروف کے ذکر سے تمام دنیا کو چیلنج کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید ان حروف تہجی ہی میں اتارا ہے، اگر تمھیں اس کے منزل من اللہ ہونے میں شک ہے تو حروف تہجی تمھارے بھی علم اور استعمال میں ہیں، تم بھی اس جیسی کوئی سورت بنا کر لے آؤ۔ اس کا قرینہ یہ ہے کہ عموماً یہ حروف جہاں بھی آتے ہیں ان کے بعد قرآن مجید، کتاب یا وحی کا ذکر آیا ہے۔ (واللہ اعلم) بعض مفسرین نے فرمایا ’’ نٓ ‘‘ کا معنی مچھلی ہے اور یہاں اس عظیم مچھلی کی قسم کھائی گئی ہے جس کی پشت پر ساتوں زمینیں رکھی ہوئی ہیں، لیکن یہ بات درست نہیں۔ ایک تو اس لیے کہ کسی صحیح حدیث سے ایسی کسی مچھلی کا وجود ہی ثابت نہیں، دوسرا اس لیے کہ بے شک کلام عرب میں ’’نون ‘‘ کا معنی مچھلی ہے، جیسا کہ فرمایا : ﴿وَ ذَا النُّوْنِ اِذْ ذَّهَبَ مُغَاضِبًا﴾ [ الأنبیاء : ۸۷ ] ’’اور مچھلی والے کو جب وہ غصے میں بھرا ہوا چلا گیا۔‘‘ مگر یہاں یہ لفظ ’’ن‘‘ کی شکل میں ہے، ’’نون‘‘ کی شکل میں نہیں۔ علاوہ ازیں اگر اس سے مراد مچھلی ہوتی تو اس پر رفع، نصب یا جر کا اعراب ہونا چاہیے تھا اور آخر میں تنوین آنی چاہیے تھی، جب کہ یہاں اس کے آخر میں وقف ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ یہ دوسرے حروف مقطعات مثلاً ’’ الٓمّٓ ‘‘ کی طرح حرف تہجی ہی ہے۔ بعض نے ’’ نٓ ‘‘ کا معنی دوات بتایا ہے ،مگر یہ لغت میں غیر معروف ہے اور اس پر اعراب اور تنوین نہ ہونے سے بھی اس کی تردید ہوتی ہے۔ 2۔ وَ الْقَلَمِ....: ’’ الْقَلَمِ ‘‘ سے مراد لوح محفوظ پر لکھنے والا قلم بھی ہو سکتا ہے، جس کے متعلق ابنِ عباس رضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( إِنَّ أَوَّلَ شَيْءٍ خَلَقَهُ اللّٰهُ تَعَالَی الْقَلَمُ وَ أَمَرَهُ أَنْ يَّكْتُبَ كُلَّ شَيْءٍ يَكُوْنُ)) [ سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ للألباني :1؍257، ح : ۱۳۳ ] ’’سب سے پہلی چیز جو اللہ تعالیٰ نے پیدا فرمائی وہ قلم ہے اور اسے حکم دیا کہ ہر وہ چیز لکھ دے جو آئندہ ہوگی۔‘‘ یہ حدیث ترمذی (۳۳۱۹)، ابو داؤد (۴۷۰۰) اور مسنداحمد (۵؍۳۱۷) میں بھی عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔ اور وہ قلم بھی مراد ہو سکتا ہے جس سے لوگ لکھتے ہیں۔ لفظ عام ہے، اس لیے اسے کسی ایک قلم کے ساتھ خاص نہیں کیا جا سکتا۔ ’’ وَ مَا يَسْطُرُوْنَ ‘‘ میں لوحِ محفوظ میں لکھے ہوئے آسمانی صحیفے، قرآن مجید اور ابتدائے خلق سے لکھی ہوئی تمام کائنات کی تقدیر بھی شامل ہے اور انسان یا فرشتے جو کچھ لکھتے ہیں وہ سب کچھ بھی شامل ہے۔