وَقَالُوا لَوْ كُنَّا نَسْمَعُ أَوْ نَعْقِلُ مَا كُنَّا فِي أَصْحَابِ السَّعِيرِ
پھر کہیں گے :’’کاش ہم (اس کی بات) سن لیتے یا سمجھتے تو ہم (آج) اہل دوزخ میں شامل نہ ہوتے‘‘
وَ قَالُوْا لَوْ كُنَّا نَسْمَعُ اَوْ نَعْقِلُ....: اب وہ حسرت و افسوس سے کہیں گے کہ ہم جس گمراہی میں مبتلا رہے، اس سے نکلنے کی دو ہی صورتیں تھیں، پہلی یہ کہ ہم رسولوں اور اہل ایمان کی باتیں سن لیا کرتے تو ایمان کی نعمت مل جاتی، دوسری یہ کہ خود کچھ عقل سے کام لیا کرتے تو توحید و رسالت اور آخرت کے عقائد تک آسانی سے پہنچ سکتے تھے۔ دو نوں صورتوں میں آج جہنمیوں میں شامل نہ ہوتے، مگر ہم اپنی مرضی اور آباو اجداد کے طریقے کے خلاف کوئی بات نہ سنا کرتے تھے اور نہ سمجھنے کی کوشش کیا کرتے تھے۔ واضح رہے کہ رسولوں کی بات دلیل سمعی ہے اور اسے سمجھنا دلیل عقلی ہے، جبکہ اپنی مرضی پر چلنا یا آباو اجدا د کی تقلید نہ دلیل سمعی ہے اور نہ دلیل عقلی، بلکہ دلیل ہے ہی نہیں۔