يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا تُوبُوا إِلَى اللَّهِ تَوْبَةً نَّصُوحًا عَسَىٰ رَبُّكُمْ أَن يُكَفِّرَ عَنكُمْ سَيِّئَاتِكُمْ وَيُدْخِلَكُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ يَوْمَ لَا يُخْزِي اللَّهُ النَّبِيَّ وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ ۖ نُورُهُمْ يَسْعَىٰ بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَبِأَيْمَانِهِمْ يَقُولُونَ رَبَّنَا أَتْمِمْ لَنَا نُورَنَا وَاغْفِرْ لَنَا ۖ إِنَّكَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ
اے ایمان والو! اللہ کے حضور خالص [١٦] توبہ کرو کچھ بعید نہیں کہ تمہارا پروردگار تم سے تمہاری برائیاں دور کردے اور تمہیں ایسی جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہیں۔ اس دن اللہ اپنے نبی کو اور ان لوگوں کو جو اس کے ساتھ ایمان لائے ہیں رسوا [١٧] نہیں کرے گا۔ ان کا نور ان کے آگے آگے اور دائیں جانب [١٨] دوڑ رہا ہوگا (اور) وہ کہہ رہے ہوں گے : ’’اے ہمارے پروردگار! ہمارے لیے ہمارا نور [١٩] پورا کردے اور ہمیں بخش دے یقیناً تو ہر چیز پر قادر ہے‘‘
1۔ يٰاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا تُوْبُوْا اِلَى اللّٰهِ تَوْبَةً نَّصُوْحًا : ’’ تَوْبَةً ‘‘ ’’ تَابَ يَتُوْبُ تَوْبَةً ‘‘ (ن) پلٹ آنا۔ ’’ نَصُوْحًا ‘‘ ’’نَصَحَ يَنْصَحُ نُصْحًا‘‘ (ف) سے ’’فَعُوْلٌ‘‘کے وزن پر مبالغے کا صیغہ ہے، بہت خالص۔ یہ وزن مذکر و مؤنث اور واحد، جمع و تثنیہ سب کے لیے اسی طرح استعمال ہوتا ہے، اس لیے’’تَوْبَةً‘‘ مذکر ہونے کے باوجود ’’نَصُوْحًا‘‘(مؤنث) کی صفت ہے۔ ’’نَصَحَ الشَّيْءُ‘‘ اس وقت کہتے ہیں جب کوئی چیز خالص ہو، اس میں کھوٹ نہ ہو۔ شہد یا کوئی اور چیز جب خالص ہو تو اسے ’’اَلنُّصْحُ‘‘ کہتے ہیں۔ ’’اَلنُّصْحُ‘‘ (خالص ہونا) ’’اَلْغَشُّ‘‘ (کھوٹا ہونے) کا متضاد ہے۔ اس آیت میں جہنم سے بچنے کا طریقہ بتلایا ہے، فرمایا اے ایمان والو! اللہ کی طرف پلٹ آؤ، خالص اور سچا پلٹنا۔ یعنی اگر نافرمانی کر کے اللہ تعالیٰ سے دور ہوگئے ہو تو اسے ترک کرکے واپس اس کی طرف پلٹ آؤ۔ توبۂ نصوح کی پہلی شرط یہ ہے کہ محض اللہ کے خوف کی وجہ سے آدمی گناہ پر نادم ہو، کسی دنیاوی نقصان کی وجہ سے ندامت توبہ نہیں۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( اَلنَّدَمُ تَوْبَةٌ )) [ ابن ماجہ، الزھد، باب ذکر التوبۃ : ۴۲۵۲، وقال الألباني صحیح ] ’’ندامت توبہ ہے۔‘‘ دوسری شرط یہ ہے کہ گناہ چھوڑ دے اور فوراً چھوڑ دے۔ (دیکھیے نساء : ۱۷۔ اعراف : ۲۰۱) تیسری شرط یہ کہ آئندہ نہ کرنے کا پختہ ارادہ کرے، گناہ پر قائم نہ رہے۔ (دیکھیے آل عمران : ۱۳۵) اور چوتھی شرط یہ ہے کہ اگر اس کا تعلق بندوں کے حقوق سے ہے تو جہاں تک ممکن ہو انھیں ادا کرے یا معافی مانگ لے۔ 2۔ عَسٰى رَبُّكُمْ اَنْ يُّكَفِّرَ عَنْكُمْ سَيِّاٰتِكُمْ....: اس میں توبۂ نصوح پر گناہوں کی معافی اور جنتوں میں داخلے کی خوش خبری سنائی ہے۔ 3۔ يَوْمَ لَا يُخْزِي اللّٰهُ النَّبِيَّ وَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مَعَهٗ : ’’ يَوْمَ ‘‘ کا لفظ ’’ يُدْخِلَكُمْ ‘‘ کا ظرف ہے، یعنی گناہوں کی معافی اور جنت میں داخلہ اس دن ہوگا جس دن اللہ تعالیٰ نبی کو اور اس کے ساتھ ایمان لانے والوں کو رسوا نہیں کرے گا۔ اس کے ساتھ ایمان لانے والوں میں صحابہ کرام، تابعین، تبع تابعین اور ان کے بعد قیامت تک آنے والے تمام مسلمان شامل ہیں۔ تفصیل کے لیے دیکھیے سورۂ فتح کی آخری آیت کی تفسیر۔ ان میں ازواج مطہرات بالاولیٰ شامل ہیں، کیونکہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائیں، اللہ تعالیٰ نے انھیں اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجیت کا شرف بخشا اور جب انھیں اللہ، اس کے رسول اور آخرت اور دنیا میں سے کسی ایک چیز کو قبول کرنے کا اختیار دیا گیا تو انھوں نے اللہ، اس کے رسول اور آخرت کو قبول کیا۔ (دیکھیے احزاب : ۲۸ تا ۳۴) اور ان کے ایثار اور صبر کی وجہ سے ان کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مزید عورتوں کے ساتھ یا ان کو بدل کر دوسری عورتوں کے ساتھ نکاح سے منع فرما دیا۔ دیکھیے سورۂ احزاب (۵۲)۔ اس دن کی رسوائی سے دنیا میں بھی انبیاء اور مومن بندے پناہ مانگتے رہے تھے۔ (دیکھیے آل عمران : ۱۹۴۔ شعراء : ۸۷) سو اللہ تعالیٰ انھیں اس رسوائی سے بچا لے گا۔ 4۔ نُوْرُهُمْ يَسْعٰى بَيْنَ اَيْدِيْهِمْ وَ بِاَيْمَانِهِمْ : اس کے لیے دیکھیے سورۂ حدید کی آیت (۱۲) کی تفسیر۔ 5۔ يَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اَتْمِمْ لَنَا نُوْرَنَا : حشر کے میدان میں جب ایمان والوں اور منافقین کے درمیان دیوار حائل ہونے پر منافقین اندھیرے میں کھڑے رہ جائیں گے تو ایمان والے اس خوف سے کہ منافقین کی طرح ہماری روشنی بھی نہ بجھ جائے اللہ تعالیٰ سے اپنے نور کو پورا کرنے اور پورا رکھنے کی دعا کریں گے، تاکہ اس روشنی میں وہ جنت تک پہنچ جائیں۔ مزید دیکھیے سورۂ حدید (۱۳ تا ۱۵)۔