قَدْ فَرَضَ اللَّهُ لَكُمْ تَحِلَّةَ أَيْمَانِكُمْ ۚ وَاللَّهُ مَوْلَاكُمْ ۖ وَهُوَ الْعَلِيمُ الْحَكِيمُ
اللہ نے تمہارے لیے (ناجائز) قسموں کو کھول دینا واجب [٢] قرار دیا ہے۔ اللہ ہی تمہارا سرپرست ہے اور وہ سب کچھ [٣] جاننے والا' حکمت والا ہے۔
1۔ قَدْ فَرَضَ اللّٰهُ لَكُمْ تَحِلَّةَ اَيْمَانِكُمْ : ’’ تَحِلَّةَ ‘‘ ’’حَلَّلَ‘‘ (تفعیل) کا مصدر ’’ تَحْلِيْلٌ ‘‘ اور ’’ تَحِلَّةٌ ‘‘ دونوں آتے ہیں، جیسے ’’كَرَّمَ ‘‘ کا مصدر ’’تَكْرِيْمٌ‘‘ اور ’’تَكْرِمَةٌ ‘‘ دونوں آتے ہیں۔ معنی ہے حلال کرنا، مراد قسم کا کفارہ ہے جس کے ادا کرنے کے بعد وہ چیز حلال ہو جاتی ہے جو قسم کھا کر حرام کی تھی، یعنی آپ نے قسم کھا کر جو شہد اور ماریہ کو حرام کیا ہے اس قسم کا کفارہ دے دیں۔ قسم کا کفارہ اللہ تعالیٰ نے سورۂ مائدہ (۸۹) میں بیان فرما دیا ہے۔ ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( وَ إِنِّيْ وَاللّٰهِ! إِنْ شَاءَ اللّٰهُ لاَ أَحْلِفُ عَلٰی يَمِيْنٍ فَأَرٰی غَيْرَهَا خَيْرًا مِّنْهَا إِلاَّ كَفَّرْتُ عَنْ يَمِيْنِيْ ، وَأَتَيْتُ الَّذِيْ هُوَ خَيْرٌ )) [بخاري، الأیمان والنذور، باب قول اللّٰہ تعالٰی : ﴿ لایؤاخذکم اللّٰہ ....﴾ : ۶۶۲۳ ] ’’اور اللہ کی قسم! میں، اگر اللہ نے چاہا تو کسی بھی بات پر قسم کھاؤں گا، پھر اس کے خلاف کو اس سے بہتر دیکھوں گا تو اپنی قسم کا کفارہ دوں گا اور وہ کام کروں گا جو بہتر ہے۔‘‘ ناجائز کام کی قسم کھالے تو اسے توڑنا اور اس کا کفارہ دینا ضروری ہے۔ 2۔ وَ اللّٰهُ مَوْلٰىكُمْ وَ هُوَ الْعَلِيْمُ الْحَكِيْمُ : ’’مَوْلٰي‘‘ کا معنی ہے مالک، دوست، مددگار۔ یعنی اللہ تعالیٰ تمھارا مالک، تمھارا مددگار اور تم پر بے حد مہربان ہے، اسی لیے اس نے تمھیں ایسی چیزوں سے منع فرمایا ہے جو تمھیں مشکل میں مبتلا کر دیں اور اگر قسم کھا کر ایسی کسی مشکل میں پڑ جاؤ تو اس سے نکلنے کا طریقہ بھی بتا دیا ہے، کیونکہ : ﴿يُرِيْدُ اللّٰهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَ لَا يُرِيْدُ بِكُمُ الْعُسْرَ﴾ [ البقرۃ : ۱۸۵ ] ’’اللہ تمھارے ساتھ آسانی کا ارادہ رکھتا ہے اور تمھارے ساتھ تنگی کا ارادہ نہیں رکھتا۔‘‘ اور وہی ہے جو سب کچھ جاننے والا اور کمال حکمت والا ہے، اس لیے اس کے کسی حکم میں کوئی خطا نہیں، کیونکہ اس کے تمام احکام کامل علم و حکمت پر مبنی ہیں۔