أَسْكِنُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ سَكَنتُم مِّن وُجْدِكُمْ وَلَا تُضَارُّوهُنَّ لِتُضَيِّقُوا عَلَيْهِنَّ ۚ وَإِن كُنَّ أُولَاتِ حَمْلٍ فَأَنفِقُوا عَلَيْهِنَّ حَتَّىٰ يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ ۚ فَإِنْ أَرْضَعْنَ لَكُمْ فَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ ۖ وَأْتَمِرُوا بَيْنَكُم بِمَعْرُوفٍ ۖ وَإِن تَعَاسَرْتُمْ فَسَتُرْضِعُ لَهُ أُخْرَىٰ
مطلقہ عورتوں کو (ان کے زمانہ عدت میں) وہیں رکھو جہاں تم خود رہتے ہو [١٨]، جیسی جگہ تمہیں میسر ہو، اور انہیں تنگ کرنے کے لئے ایذا [١٩] نہ دو۔ اور اگر وہ حمل والی ہوں تو وضع حمل تک ان پر خرچ [٢٠] کرتے رہو۔ پھر اگر وہ تمہارے لیے (نومولود) کو دودھ پلائیں تو انہیں ان کی اجرت دو۔ اور باہمی مشورہ سے بھلے طریقے سے (اجرت کا معاملہ) طے کرلو۔ اور اگر تم نے (اجرت طے کرنے میں) ایک دوسرے [٢١] کو تنگ کیا تو کوئی دوسری عورت دودھ پلائے گی۔
1۔ اَسْكِنُوْهُنَّ مِنْ حَيْثُ سَكَنْتُمْ مِّنْ وُّجْدِكُمْ : اس میں ان عورتوں کا حکم بیان فرمایا ہے جنھیں پہلی یا دوسری طلاق دی گئی ہو۔ پہلے ان کے متعلق فرمایا تھا کہ عدت پوری ہونے تک انھیں ان کے گھروں سے نہ نکالو اور نہ ہی وہ خود نکلیں، اب اسی کی تفصیل ہے۔ ’’ مِنْ حَيْثُ سَكَنْتُمْ ‘‘ میں ’’ مِنْ ‘‘ تبعیض کے لیے ہے، یعنی جہاں تم رہتے ہو اس کے کسی حصے میں انھیں بھی رہنے کے لیے جگہ دو۔ ’’ مِنْ وُّجْدِكُمْ ‘‘ اپنی وسعت کے مطابق، یعنی مکان ذاتی ہے یا کرائے کا یاخیمہ وغیرہ ہے، جہاں رہتے ہو وہیں انھیں رکھو۔ اس کا مقصد اللہ تعالیٰ نے اس سے پہلے بیان فرمایا ہے کہ اتنی مدت ایک جگہ رہنے کی وجہ سے ہو سکتا ہے اللہ تعالیٰ دوبارہ موافقت کی صورت پیدا فرما دے اور رجوع ہو جائے، اس دوران ان کا نفقہ بھی خاوند کے ذمے ہے۔ تیسری طلاق کے بعد چونکہ رجوع کی گنجائش نہیں، اس لیے خاوند کے ساتھ رہائش کا حکم بھی نہیں اور نہ ہی ان کا خرچ خاوند کے ذمے ہے، جیسا کہ پہلی آیت کے فائدہ (۱۲) میں فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنھا کی صحیح حدیث میں گزر چکا ہے۔ 2۔ وَ لَا تُضَآرُّوْهُنَّ لِتُضَيِّقُوْا عَلَيْهِنَّ : یعنی انھیں نفقہ میں کمی یا نامناسب رہائش یا بدزبانی یا مار پیٹ کے ساتھ تکلیف پہنچا کر تنگ نہ کرو کہ وہاں رہیں تو تنگی میں مبتلا رہیں یا پھر مکان چھوڑ کر چلی جائیں یا مہر چھوڑ دیں۔ 3۔ وَ اِنْ كُنَّ اُولَاتِ حَمْلٍ فَاَنْفِقُوْا عَلَيْهِنَّ....: مطلقہ عورت اگر حاملہ نہیں تو رجعی طلاق کی صورت میں اس کا نفقہ اور رہائش خاوند کے ذمے ہے، تیسری طلاق کی صورت میں اس کا نفقہ یا رہائش خاوند کے ذمے نہیں، جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے۔ البتہ اگر وہ حاملہ ہے تو رجعی طلاق کی صورت میں بچہ پیدا ہونے تک اس کا نفقہ اور رہائش دونوں خاوند کے ذمے ہیں اور اگر تیسری طلاق ہے تو وضع حمل تک صرف اس کا خرچہ خاوند کے ذمے ہے۔ 4۔ فَاِنْ اَرْضَعْنَ لَكُمْ فَاٰتُوْهُنَّ اُجُوْرَهُنَّ: اس جملے سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق بچہ باپ کا ہوتا ہے ماں کا نہیں، کیونکہ ماں اس بچے کے باپ کے لیے دودھ پلا رہی ہے اور اجرت لے رہی ہے، اگر بچہ ماں کا ہو تو اجرت لینے کا سوال پیدا نہیں ہوتا۔ دوسرا یہ کہ عورت اپنے دودھ کی خود مالک ہے، وہ طلاق دینے والے خاوند سے بھی اسی طرح اجرت لے سکتی ہے جیسے دوسروں سے۔ 5۔ وَ اْتَمِرُوْا بَيْنَكُمْ بِمَعْرُوْفٍ : ’’ وَ اْتَمِرُوْا ‘‘ ’’اِئْتَمَرَ يَأْتَمِرُ اِئْتِمَارًا‘‘ (افتعال) مشورہ کرنا، جیسا کہ سورۂ قصص میں فرمایا : ﴿يٰمُوْسٰى اِنَّ الْمَلَاَ يَاْتَمِرُوْنَ بِكَ لِيَقْتُلُوْكَ﴾ [ القصص : ۲۰ ] ’’اے موسیٰ! بے شک سردار تیرے بارے میں مشورہ کر رہے ہیں کہ تجھے قتل کر دیں۔‘‘ طلاق کے بعد عموماً میاں بیوی کی باہمی ناچاقی اور ناراضی کی وجہ سے کشیدگی پیدا ہو چکی ہوتی ہے، ایسی صورت میں میاں بیوی دونوں کو اور ان کے تعلق والوں کو حکم دیا کہ بچے کو دودھ پلانے، اس کے علاج و تربیت اور اس کی بہتری کے لیے آپس میں اچھے طریقے سے مشورہ کرتے رہو، ایسا نہ ہو کہ تمھاری کشیدگی بچے کو نقصان پہنچانے کا باعث بن جائے۔ 6۔ وَ اِنْ تَعَاسَرْتُمْ فَسَتُرْضِعُ لَهٗ اُخْرٰى : یعنی اگر ماں کسی بیماری یا کمزوری کی وجہ سے دودھ پلانے سے انکار کر دے، یا اجرت اتنی زیادہ مانگے جو خاوند کی استطاعت یا معروف رواج سے زیادہ ہو، یا خاوند اس کی طلب کردہ اجرت دینے پر تیار نہ ہو، یا کسی اور وجہ سے آپس میں ضد پیدا ہو جائے اور ماں دودھ نہ پلائے تو ضروری نہیں کہ ہر حال میں ماں ہی دودھ پلائے، بلکہ کوئی اور عورت اسے دودھ پلا دے گی۔